میں، میرا شہر اور پاک بھارت کرکٹ سیمی فائنل - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Thursday, March 31, 2011

میں، میرا شہر اور پاک بھارت کرکٹ سیمی فائنل

جیسے جیسے موہالی میں ہونے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسرے سیمی فائنل کی تاریخ قریب آنے لگی۔ قوم کے جوش و خروش میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا۔ جسے دیکھو کرکٹ کے بخار میں مبتلا نظر آتا تھا۔ گلی محلوں سے لیکر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر جگہ موضوع بحث پاک بھارت میچ ہی تھا۔ قوم ملک میں پھیلی بے چینی و  بدامنی، لاقانونیت، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی، ڈرون حملے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ اور مہنگائی کے سیلاب کو بھلائے، کرکٹ میں مگن تھی۔ ہندوستانی وزیراعظم نے کرکٹ ڈپلومیسی کا چارا پھینکا جسے وزیراعظم گیلانی نے لپک کر حاصل کیا جیسے اسی انتظار میں بیٹھے تھے۔ وفاقی حکومت نے پاک بھارت میچ کے میزبان ملک سے بھی ایک ہاتھ آگے بڑھ کر پورے ملک میں آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کردیا۔

میچ والے دن میں صبح صبح آدھی چھٹی کی خوشی میں خلاف معمول وقت پر دفتر پہنچ گیا لیکن کام سمیٹتے سمیٹتے چار بج ہی گئے۔ جب میں دفتر سے گھر کے لیے نکلا تو اس وقت تک پاکستانی ٹیم سچن ٹنڈولکر کو چار مواقع عنایت کرچکی تھی۔  دفتر سے نکل کر شارع فیصل پر پہنچا تو سڑک کی حالت دیکھ کر کسی ہڑتال کا گمان گذرا اور شارع فیصل پر کرکٹ کھیلنے کو دل مچلنے لگا۔ کچھ دیر بعد میرے روٹ کی بس آگئی۔ اگر آپ نے کبھی کراچی کی بس میں سفر کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کیسا انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ وہی کنڈکڑ اور سواریوں کے درمیان کرائے کی زیادہ وصولی اور کم ادائیگی پر معرکے، کنڈکٹر کا پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں آضافے کی رٹ، سواریوں کا مہنگائی میں بے تحاشہ اضافے کا رونا۔ حکومت وقت کو کوسنے اور آخر میں غریب صدر مملکت کی شان میں قصیدہ گوئی، لیکن آج اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ میچ پر ماہرانہ تجزیے اور تبصرے بھی جاری تھے۔ میرا موبائل فون مجھے مسلسل میچ کی اپڈیٹ دے رہا تھا۔ میں سب کچھ چھوڑ کر کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں منہمک ہوگیا۔

وقفے وقفے سے منچلوں کی ٹولیاں کاروں اور بیغیر سائلنسر کی موٹر سائیکلوں پر سوار، چہروں کو پاکستانی پرچم کے رنگوں سے سجائے، مختلف نعرے لگاتے گزر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر دل میں ایک خلش سی اٹھی، اے کاش یہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف بھی اسی جوش و خروش سے باہر نکلتے، کاش یہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے قبائلیوں اور اس کے نتیجے میں یتیم ہوجانے والے معصوم بچوں کا درد محسوس کرتے ہوئے وطن کی آزادی و خودمختاری کو بچانے کے لیے اسی جذبے سے حکمراں ٹولے کے خلاف نکلتے، صد افسوس کہ توہین رسالت اور توہین قرآن کے واقعات کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے کی تمہیں توفیق نہ ہوسکی۔ امریکی عقوبت خانوں میں عافیہ صدیقی کی 86 سال کی سزا تمہارے ضمیر کو نہ جھنجھوڑ سکی۔ ٹارگٹ کلنک کا تم شکار ہو، مہنگائی کا عفریت تمہیں دبوچے ہوئے ہے۔ لیکن تم سوائے حکمرانوں کو گالیوں سے نوازنے کے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہاں 70 روپے کلو دودھ خریدنے کے لیے لائن میں لگنے کو ضرور تیار ہو۔ نہ جانے میں کب تک اس کیفیت کا شکار رہتا کہ اچانک پاس کھڑے ایک صاحب نے مجھے جھنجھوڑ کر حقائق کی دنیا میں واپس کھینچ لیا۔ جب میں ان کی طرح متوجہ ہوا تو پوچھنے لگے: اسکور کیا ہوا ہے؟

اپنے اسٹاپ پر اتر کر میں گھر کی طرف چل پڑا، علاقے میں مختلف جگہوں پر بڑی اسکرین نسب کرنے میچ دکھانے کا انتظام تھا اور شوقین حضرات اسکرین پر نظریں جمائے میچ دیکھنے میں منہمک تھے۔ جیسے ہی کوئی وکٹ ملتی یا اچھی فیلڈنگ کا مظاہرہ ہوتا، یار لوگ بھنگڑے ڈالنا اور شور و غوغا شروع کردیتے۔ علاقے کے یونٹ آفس کے سامنے لڑکے بالے بھائی کے پروموشنل سانگز کی تاپ پر محو رقص تھے اور ساتھ ہی ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر شاید ہولی منانے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ بغیر سائلنسر کی موٹرسائیکلوں پر منچلوں کا گشت بھی جاری تھا۔  میرے اندر چھپا رجعت پسند پھر سے رنگ میں بھنگ ڈالنے لگا، میں نے سوچا کہ انہیں کل ہوئے دھماکے میں مارے جانے والوں کے گھروں میں بچھی صف ماتم کی خبر دوں، انہیں بتائوں کہ آج کتنے افراد نے بھوک اور بروزگاری سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔  انہیں خبر کروں کہ آج عافیہ صدیقی کو امریکی عقوبت خانوں میں 8 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ان سے پوچھوں کہ کشمیر، فلسطین، عراق و افغانستان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے عوام الناس کو باخبر کرنے کے لیے ٹی وی اسکرین نسب کرنے کا خیال تمہیں کب آئیگا؟ لیکن میں ایسا نہیں کرسکا۔

اس ساری صورتحال میں اگر ایس ایم ایس مافیا کی مہم کا حوالہ نہ دیا جائے تو یہ یقینا بے ایمانی ہوگی۔ معاملہ مہنگائی کا ہو یا امریکی غلامی کا، ڈرون حملے ہوں یا ٹارگٹ کلنگ، کم از کم ایس ایم ایس کی حد تک ایک موثر مہم ضرور چلائی جاتی ہے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کرکٹ کے حوالے سے کوئی کاوش نہ کی جائے۔ اس ساری صورتحال پر نمونے کے چند ایس ایم ایس پیش خدمت ہیں۔
انڈیا کے مندروں میں پوجا شروع، ہم نے بھی سوا لاکھ کا ختم شروع کیا ہے۔ "لاالہ الاانت سبحانک انی کنت منظلمین"۔ پڑھیں اور آگے بھیجیں۔

اے آر وائی پر فلاں مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ جب میچ شروع ہو تو عوام کثرت سے اللہ کا نام یافتح کا ورد کرے، انشااللہ کامیابی ہوگی۔ پڑھیں اور آگے بھیجیں۔

جب پاکستان کی 6 وکٹیں گرچکیں تو اس وقت بھی یار لوگ ایس ایم ایس کے ذریعے جیت کے لیے مختلف اوراد و وظائف کا ورد کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ ہم ان ایس ایم ایس کو پڑھ کر زیر لب مسکراتے اور دل ہی دل میں وظائف کا ورد شروع کردیتے کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہوجائے، مگر وائے افسوس۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ خطرناک شدت پسندوں کے ایس ایم ایس بھی موصول ہوئے جو کچھ یوں تھے:
جس قوم کا سر عافیہ صدیقی کی 86 سال قید، ڈیوس کی باعزت رہائی اور امریکا کے ڈرون حملوں کی وجہ سے جھکا ہوا ہو، اس قوم کا وقار کرکٹ ورلڈکپ جیتنے سے بلند نہیں ہوگا۔

میچ ہارنے کے بعد ایک صاحب کہتے ہیں:
ڈیو س کی رہائی کی سزا ملی ہے۔ بغیرت قوم کو خوش ہونے کا کوئی حق نہیں۔ امریکہ کا دوست اللہ کا غدار ہے اور ذلت کا حقدار ہے۔ کفر کے ساتھیوں، مزید ذلت کے لیے تیار رہو۔

یوں کرکٹ کے ورلڈ کپ 2011 میں پاکستان کا سفر اختتام پذیر ہوا۔ قوم کرکٹ کے بخار سے کچھ عرصے بعد شفایاب ہوجائے تو شاید اسے دوسرے امور کا بھی خیال آئے لیکن ہم پر مسلط مداری بھی منجھے ہوئے ہیں، دیکھے کہ کیسے پھر کسی نئے کرتب میں قوم کو مصروف کرتے ہیں۔  تو دوستو یہ تھی میچ کتھا۔ اب جس کا دل چاہے اس سے نصیحت پکڑے یا صم بکم عمی فہم لایرجعون کی عملی تصویر بنا رہے، باقی رہے نام اللہ کا۔

10 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

جیت جاتے نا تو مزید تماشے دیکھنے کو ملتے۔
اللہ کا شکر ادا کرو کہ ہار گئے۔

افتخار اجمل بھوپال said...

سکول ميں ايک محاورہ پڑھا تھا " 9 دن اور 13 ميلے" يہ اُن چند محاوروں ميں سے تھا جس کی سمجھ نہيں آئی تھی ۔4 دہائياں قبل اس کی سمجھ آنا شروع ہوئی اور پچھلی ايک دہائی ميں پوری سمجھ آ گئی ہے

خرم ابن شبیر said...

ہر چیز میں سیاست ہے جناب کیا کریں ہم غریب لوگ

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

کرکٹ سے قطع نظر میں کبھی کبھی یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہوں کہ شاید شامت اعمال کی وجہ سے شیطان کو پاکستان میں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ خیر کہیں چھپا دیا گیا ہے۔ اور شر کو ہر قسم کی آزادی دے دی گئی ہے۔

اسقدر ذلت سہنے کے باوجود اس قوم کو اپنے قد سے اٹھنے کا کیال سوہان روح نظر آتا ہے

صفدر علی صفدر said...

بھیا سب بات چھوڑیں! چھکا تو آج صبح آفریدی دی گریٹ نے مارا ہے... ہندوستان سے واپس کراچی پہنچنے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا’’ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ہر گھر میں انڈین ڈرامے چلتے ہیں ، انڈین فلمیں دیکھی جاتی ہیں ، ہماری شادیاں اُن کی طرح ہوتی ہیں پھر ہندوستان سے اتنی نفرت کیسی... ؟؟؟‘‘
ٹھیک کہا آفریدی بھیا آپ نے... ہم ہیں ہی بے غیرت ، منافق اور دوغلی قوم... نام اللہ اور اُسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لیتے ہیں اور زندگی ذلیل مشرکوں اور کافروں کی طرح گزارتے ہیں...
آفریدی بھائی تمہارا یا ٹٰیم کا قصور نہیں ہے، ہماری منافقت ، بے غیرتی ، بے حسی اور گناہوں کی نحوست نے ہمیں ذلیل کیا ہے... اور اگر ہم نے اپنی روش تبدیل نہ کی اللہ کی طرف رجوع نہ کیا، بے حسی اور بے غیرتی کا لبادہ نہ اُتارا تو پتا نہیں اور کتنی ذلتیں ہمارے انتظار میں ہوں...

دو ا شعار میں نے آج صبح ہی کہیں ہے...

جس قوم کے افراد میں غیرت نہ ہو باقی
اُس قوم کے افراد کا رُسوائی مقدر
جس قوم کو قابو ہی نہیں نفس پر اپنے
اُس قوم کے افراد کا پسپائی مقدر

یا اللہ ہمارے حال پر رحم فرما ، ہمیں غیرت ایمانی عطا کراور قولی و فعلی منافقت سے بچا...آمین یا رب العالمین!

اللہ سے پناہ اور مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے حال پر بھی بہت زیادہ نظر کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم قول سے نکل کر عمل کی طرف بھی آجائیں تو یقینآ بگڑی بننے میں دیر نہیں لگے گی... مگر ہائے رے ہماری منافقت اور قرآن سے دوری....

کہتا تو بہت کچھ ہے مگر کرتا نہیں ہے
صفدر یہ منافق کے رویے ہیں، بچا کر
جس شوق سے پڑھتا ہے جہاں بھر کی کتابیں
اُس شوق سے صفدر کبھی قرآں بھی پڑھا کر

UncleTom said...

لوگوں کے دماغ کام کرنا بند ہوگئے ہیں۔

محمد ابرار said...

گھر میں کیا تھا کہ تیرا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

مجھے اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ خوشیوں کے دن اب ختم ہوئے اب صرف زلت اور مسکنت ہی باقی رہ گئی ہے. اللہ سبحانہ تعالٰی سے منافقت کرکے صرف اور صرف دنیا اور آخرت کی ذٓلتیں ہی سمیٹی جا سکتی ہیں.
عجیب بات یہ ہو رہی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں پورا احساس ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالٰی نے ہم سے توبہ اور عمل کی توفیق چھین لی ہے.ذید محسوس کرتا ہے تو بکر کو کہتا ہے. بکر سنتا ہے تو عمر کو کہتا ہے .سب محسوس کرتے ہیں. سب کے ضمیر بوجھل ہیں. مگر آگے کوئی نہیں آرھا.
آئیے اس قوم کا نوحہ پڑہیں، قل، تیجا اور چالیسواں کریں. کیونکہ کسی اور نے تو یہ کام کرنا نہیں ہے. اس قوم کی موت پر جشن تو ضرور منایا جائے گا مگر رونے کوئی نہیں آئے گا.

تحریم said...

پاکستان ہار گیا
پر ہمیں پھر بھی فخر ہے کہ ہم اچھا کھیلے
ہار جیت تو ہوتی ہی ہے
ہمیں ویسے بھی اتنا آگے جانے کی امید بھی نہ تھی

کاشف نصیر said...

پاک بھارت سیمی فائنل کو مہینہ گزر چکا ہے، جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی اس قصہ کو بھول چکے ہیں لیکن ایک مہینہ پہلے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جو ملک ہارے گا وہ برباد ہوجائے گا اور جیتے گا وہاں دودھ کی نہریں جاری ہونے لگے گی.

کاش کھیل کو صرف کھیل سمجھا جاتا، سیاست اور مذہب کو بیچ میں نہ لایا جاتا.

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here