شہید تیرا قافلہ رکا نہیں تھما نہیں - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Sunday, May 15, 2011

شہید تیرا قافلہ رکا نہیں تھما نہیں

اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کا قانون ہی برحق ہے۔ باقی سارے قانون جھوٹے، غیر اسلامی، طاغوتی اور منسوخ کئے جانے کے قابل ہیں۔
ان الحکم الا للہ -------------- بادشاہی صرف اللہ ہی کے لیے ہے
اور زمین پر اللہ کے حکم سے بے نیاز اور آزاد قائم کی ہوئی بادشاہتیں دراصل ناجائز، باغیانہ ریاستیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ حشر کے روز زمین و آسمان کا مالک زمینوں اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے گا اور پھر فرمائے گا:
لمن الملک الیوم ------------- آج کے دن کس کی بادشاہی ہے
کہاں ہیں وہ جبار جو زمین پر اپنے جبر سے مسلط تھے اور کہاں ہیں وہ متکبر جو زمین پر اپنے غرور کا سر بلند کیے ہوئے تھے؟ اس روز اس پکار کا کسی کی طرف سے کوئی جواب نہ آئیگا۔ سچے بادشاہ کے اس فرمان کے للہ الواحد القھار "اللہ ہی کے لیے بادشاہی ہے جو واحد اور غالب اور زبردست ہے"۔

.
ہمارا ایمان ہے کہ وہی ایک سچا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ اس کا قانون ہی برحق ہے اور وہی اس کے بندوں پر نافذ ہونا چاہیے۔ لا الہ الا اللہ کا یہی مفہوم ہے۔ یہی وہ سب سے بڑا نسب العین ہے جسے برپا کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے نیک بندے ہر دور میں آتے رہے۔ دکھ سہتے رہے اور اپنی زندگیوں کو کھپا کر، انہیں قربان کرکے بھی اس کام کو سر انجام دیتے رہے۔ تن تنہا آئے اور دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں اور قوت والوں کو کھلا چیلنج دے کر اپنے مالک کا فرمان پورا کرگئے۔ کسی نے نمرود کے درباروں میں غلغلے بلند کیے، کسی نے فرعونوں کو مالک کے قانون کے سامنے جھکا دیا اور کسی نے ابو جہلوں اور ابولہبوں کو قانون الہی کے آگے سرنگوں کیا۔ عزیمتوں کا قافلہ تو ہمیشہ سے رواں دواں رہا ہے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اور ہمیشہ میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا۔ تاریخ تو ان واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے اہل حق کو سابقہ پیش آیا۔ کیا محدث مدینہ امام مالک نے ستر کوڑوں کی ضربیں اپنی کمر پر نہیں سہیں؟ امام اعظم ابو حنیفہ نے قید تنہائی اور کوڑوں کی اذیت نہیں برداشت کی، اور کیا اسی عالم میں جاں جان آفریں کے سپرد نہیں کی؟ امام احمد بن حمبل نے قید و بند اور کوڑوں کی ضربیں نہیں سہیں؟ کیا حضرت مجدد الف ثانی کو کلمہء حق کے اظہار پر گوالیار جیل میں نہیں ڈالا گیا؟ مجاہد کبیر مولانا محمد جعفر تھا نیسری کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی۔ کیا تحریک مجاہدین کے اس جانباز نے اپنی ساری عمر اسی حال میں نہیں گذاری؟ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا تو دنیا کے کونے کونے میں پیچھا کیا گیا اور پھر گرفتار کرکے اس قدر اذیتیں پہنچائی گئیں کہ جس وقت ان کی میت کو غسل دیا گیا تو ان کی پیٹھ کی یہ کیفیت تھی جیسے دھنکی ہوئی روئی۔ کیا عبدالقادر عودہ، سید قطب اور دوسرے زعمائے اخوان المسلمون نے جام شہادت نہیں پیا۔ شیخ احمد یاسین نے کس کے لیے جان دی؟ اگر حال ہی میں اسامہ بن لادن طاغوت وقت کو لکارتے ہوئے شہید ہوگئے تو کیا غم کہ:
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اسامہ بن لادن


ہمارے گھر میں مختلف رسائل و جرائد آتے تھے جن کی بدولت افغان جہاد کے رہنمائوں سے تعارف ہوا جن میں گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، عبداللہ عزام اور اسامہ بن لادن شامل تھے۔ اسی دوران ان کی ایک تصویر میری نظروں سے گذری جس میں عقابی نگاہوں، کشادہ پیشانی اور روشن چہرے والا یہ عظیم مجاہد افغان مجاہدین کے جھرمٹ میں اپنی اے کے سیونٹی فوررائفل کے ساتھ کھڑا تھا۔ آپ اسے میری کج فہمی یا مادہ پرستانہ سوچ کا شاخسانہ کہیں کہ میں نے سوچا کہ اربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک اس عرب شہزادے کو کیا پڑی ہے کہ یہ اپنا آرام و سکون چھوڑ کر افغان کہساروں میں خوار ہوتا پھر رہا ہے۔ اگر اسامہ میرے ان الفاظ کو سن لیتے تو شاید یہی کہتے کہ:
کچھ سمجھ کر ہی بنا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے۔

لیکن آج جب سوچتا ہوں تو بے اختیار یہ شعر خود کے لیے موذوں نظر آتا ہے کہ:
سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا، سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا

.

قطعہ نظر اس سے کہ اس مجاہد عظیم نے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں جام شہادت نوش کیا یا اس سے سالوں پہلے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنی منزل مراد کو پاگیا۔ ہاں وہی منصب شہادت جس کی آرزو لیے سالوں اس نے طوغوت وقت کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ شیخ کی شہادت کے بعد طاغوت وقت کی نظر کرم پر پلنے والے اپنے آقا کی وقتی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ ان کی خوشی دیدنی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ کے بعد ان کے آقا کو للکارنے والا کوئی نہیں اور شاید انہوں نے حق پرستوں کی پیشقدمی کو مسدود کردیا ہے۔ یہ اہل حق پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ تو فساد پھیلانے والے ہیں۔ اللہ نے ان کا مکر و فریب ان الفاظ میں بیان کیا کہ:
انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظھر فی الارض الفساد [المومن ۲۶:۴۰]
فرعون نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے یا ملک میں فساد پھیلائے۔

.
فرعون کے سرداران حکومت نے کہا:
لیفسدوا فی الارض و یذرک و الھتک [الاعراف ۱۲۷:۷]
کیا آپ موسی اور اس کی جماعت کو چھوڑ دیجیے گا کہ ملک میں فساد پھیلائے اور آپ کے اقتدار سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائے۔

.
یہ باطل کے ہرکارے اپنے آپ کو عقلمند اور اہل حق کو بیوقوف سمجھتے ہیں اور یہ اس معاملے میں بھی نئے نہیں:
قال الملا الذین کفرو من قومہ انا لنرکفی سفاھۃ و انا لنظنک من الکذبین [الاعراف ۲۲:۷}

اور ان کی قوم کے سردار جو حق کے منکر تھے کہنے لگے تم تو ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔

.

کسی بھی بلاگ یا فورم پر چلیں جائیں، اگر کوئی اسلام پر اصرار کرے تو یہ اس پر صالح اور پاکباز ہونے کی پھبتی بھی کستے ہیں۔ "اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت" ان کا بڑا مشہور تکیہ کلام ہے۔ قوم لوط کے بدکردار سرداروں نے بھی کہا:
انہم اُناس یتطھرون [الاعراف ۸۲:۷]
ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔

.
انہیں منافقین کے کرتوتوں کو اللہ نے سورۃ انفال میں یوں واضح کیا:

إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَّ هَؤُلاَءِ دِينُهُمْ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔[انفال ۴۹:۷]

.
جان لو کہ کامیابی تو صرف حق ہی کا مقدر ہے۔
وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا إِنَّهُمْ لاَ يُعْجِزُونَ [انفال ۵۹:۸]
منکرینِ حق اِس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے،یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔

.
تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ قتل، پھانسی ، کوڑے اور قید و بند کی صعوبتیں مسافران راہ حق کے عزائم کو کمزور کرسکتے ہیں؟ اہل حق کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ :
ولمارا المومنون الاحزاب قالو ھذا ما وعدنااللہ ورسولہ و صدق اللہ و روسولہ وما زادحم الا ایمانا و تسلیما [الاحزاب ۲۲:۳۳]
اور جب ایمان سے سرشار بندوں نے باطل کے لشکروں کو امڈتا دیکھا تو وہ بے اختیار پکار اتھے، یہی تو وہ آزمائش ہے جس کا وعدہ ہم سے اللہ اور اس کے روسول نے کیا تھا۔ بالکل سچا وعدہ تھا خدا اور اس کے رسول کا، اور اس طرح ان مصائب سے اضافہ ہوا تو ان کے ایمان اور سپردگی میں ہوا۔

.
سلام ان مسلمانوں پر جنہوں نے علاقہ پرستی اور قوم پرستی کے اس دور میں ہجرت اور جہاد کی شمعوں کو روشن کیا۔ طاغوت نے شہید کی میت کو زمین پر اس خوف سے دفن نہیں کیا کہ کہیں اس کی قبر مرجع خلائق نہ بن جائے۔ ہاں اچھا کیا۔۔۔ عرب کے اس شہزادے کے لیے بحر عرب ہی بہترین جگہ تھی۔ شہید کو ایک قبر میں کیا مقید کرنا۔ اب تو پورا بحر عرب اس کا مدفن ہے۔ دیوانے اس کے کسی بھی کنارے پر کھڑے ہوکر اپنے جہاد اور شہادت کے جذبوں کو مہیز دینگے۔ سلام اے قافلہء راہ حق کے سالار، سلام اے شہید حق۔۔

16 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

جزاک اللہ۔
بہت اچھا لکھا۔
عرصے بعد اچھی تحریر پڑھنے کو ملی ۔
بہت خوب

سعد said...

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

عمران اقبال said...

یوں تو اسامہ بن لادن کے بارے میں میرے سوچ آپ سے کچھ کچھ مختلف ہے... لیکن آپ کی اس بات سے کہ" اربوں ڈالر کی جائیداد چھوڑ کر ایک شہزادہ صحرا نشین ہوا... اور ساری عمر طاغوت سے لڑتے گزاری" میں بہت حد تک متفق ہوں... اللہ اسامہ بن لادن کی مغفرت کرے... آمین...

اللہ آپ کو بھی یونہی اچھا لکھاتا رہے... اور جزائے خیر دے... آمین...

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

جہاد کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جس کا مفہوم ہے کہ جہاد کو کوئی نہیں روک سکے گا . نا ظالم کا ظلم اور نا عادل کا عدل ...یہ حدیث بتاتی ہے کہ جہاد مسلمانوں کے ایک گروہ کی پسندیدہ عبادت کا درجہ رکھے گا ...اور انکے اندر سے جہاد کو ختم نہیں کیا جا سکے گا. چاہے کوئی کتنی ہی قتل و غارت گری کر لے. کتنے ہی لشکر لے آئے......آنٹی گروپ کے طعنوں،تشنوں اور کوسنوں سے تو ہر گز اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا.... :lol:

افتخار اجمل بھوپال said...

ماشاء اللہ ۔ بہت پُرمغز تحرير لکھی ہے آپ نے
ميں تو آج تک يہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنہيں امريکا دہشتگرد کہتا ہے اُسے ميرے ہموطن بلا چوں و چرا دہشتگرد کہنا شروع کر ديتے ہيں خواہ اس شخص کے متعلق الف بے بھی معلوم نہ ہو ۔ پھر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہيں
ميرا يقين ہے کہ قرآن کی حفاظت بظاہر تو انسان کے سينوں ميں محفوظ کر کے کی گئی ہے ليکن اسے زندہ رکھنے کيلئے دو قسم کے گروہ پچھلی 14 صديوں ميں موجود رہے ہيں اور اس وقت تک رہيں گے جب سب اللہ کے بندے ختم ہو جائيں گے اور قيامت آ جائے گی
ايک گروہ تبليغ کرنے والا ہے اور دوسرا جہاد کرنے والا

اور ميں بآوازِ بلند کہتا ہوں " مِٹا سکے تو مِٹا لے دنيا ۔ بنانے والا بنا ہی دے گا"

فرحان دانش said...

میں نے سنا ہے کہ شہیدوں کے بھی درجات ہوتے ہیں. کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کونسے درجے کا شہید ہے؟؟؟؟

محمدوقار اعظم said...

اب شہیدوں کے مختلف ردجات کے بارے میں، میں نہیں جانتا۔ کیونکہ شہادت تو خود ایک بہت بڑا درجہ ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

میرے خیال میں یہ درجات شاید پاکستان آرمی تقسیم کرتی ہے جسکے بعد ہی ان بھگوڑوں کے کھوتے عاشق اس سند یافتہ شھید کی واہ واہ کرتے ہیں.

سعد said...

کیا احمقانہ سوال ہے!

اعظم طارق کوہستانی said...

لکھتے رہے ........لکھتے رہے........تھڑے سے موضوعات میں انفرادیت لانے کی ضرورت ہے.......

صفدر علی صفدر said...

دوستو ! دنیا کی بک بک سے دلبرداشتہ مت ہوا کرو... مسلمان کا حوصلہ تو یہ ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سورۃ البقرۃ میں فرمایا ہے:

154. وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
154. اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیںo
155. وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَO
155. اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo
156. الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَO
156. جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بیشک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیںo
157. أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَO
157. یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیںo

یااللہ تو ہی ہمارا پہلا اور آخری سہارا ہےہماری مدد فرما۔۔۔ ہمیں بھی ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما اور ہمیں ایک پل کےلئے بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کر اور ہمارے دلوں سے باطل قوتوں کا خوف نکال کر اپنا ڈر اور اپنی خشیت بھردےاور ہمیں گمراہ لوگوں میں ہونے سے بچااور ہم پر پے در پے اپنی نوازشوں اور رحمتوں کا نزول فرما۔۔۔بے شک تُوہی ہر ایک دُعا کا سننے والا ہے۔۔۔اے مالک اے ہمارے پروردگار ہماری فریاد سُن لے۔۔۔اور ہمیں تیری طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنے والا بنا۔۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین!

کاشف نصیر said...

جب جب سامراجیت کے خلاف جدوجہد کی بات ہوگی اسامہ بن لادن کا نام ادب سے لیا جائے گا۔

قاسم said...

شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا تو دنیا کے کونے کونے میں پیچھا کیا گیا اور پھر گرفتار کرکے اس قدر اذیتیں پہنچائی گئیں کہ جس وقت ان کی میت کو غسل دیا گیا تو ان کی پیٹھ کی یہ کیفیت تھی جیسے دھنکی ہوئی روئی۔

تحریک ریشمی رومال کوئی تحریک نہ تھی بلکہ یہ ایک جرمنی کا سفارتی مشن تھالیکن کچھ لوگون نے اپنے قلم کے زور بلکہ سینہ زوری سے اسے ریشمی رومال کی تحریک قرار دیا ہے حالانکہ یہ کوئی تحریک نہ تھی بلکہ آٹھ خطوط تھے جو راجوں مہاراجوں اور نوابوں کو پہنچانے تھے۔ تحریک اہل حدیث ص286

یہ بات بھی اہل علم اور ارباب تاریخ سے مخفی نہیں کہ دار العلوم دیوبند کے اولین مدرسین مولانا محمد احسن نانوتوی مولانا محمد یعقوب نانوتوی مولانا ذو الفقار والد گرامی شیخ الہند سب کے سن انگریز کے رٹائرڈ ملازمیں تھے۔ رٹائرڈ ملازمین گورمنٹ کے خلاف کیا تحریک چلا سکتے تھے حوالہ بالا ص322

عتیق علی said...

ایک پوسٹ اس بارے میں بھی لکھ دیں که اسامه بن لادن نے ملت اسلامیه کے لیۓ کیا کارنامے سرانجام دیے اور مسلمانوں اور پاکستان کو اسامه سے کتنے فائدے پهنچے؟ مجھے آج تک یه سمجھ نهیں آئی که آخر اسامه نے ایسا کون سا کارنامه کیا تھا جو میں اس کی شهادت کی دلیل کے لیۓ استعمال کر سکوں.

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

کمال ہے ...قاسم صاحب!
آپنے سرکار انگلشیہ کے سب سے مستند اور بہترین نوکر مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا؟؟؟

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

عتیق علی صاحب!
جہاد کی اپنی جہتیں اور اپنے نتائج ھوتے ہیں اور انہیں کاروباری نفع و نقصان کے پیمانے پر ہر چیز کو تولنے والے نہیں سمجھ سکتے...
اسامہ بھی اگر حزب اللہ کی طرح اسرائیل اور ایران کی طرح امریکا سے نورا کشتی لڑنے والا ہوتا تو یقینآ آپکے دل میں اسکی بڑی قدر ہوتی...

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here