بوڑھی گنگا کے کنارے۔۔۔۔ - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Tuesday, December 14, 2010

بوڑھی گنگا کے کنارے۔۔۔۔

مئی 2009 میں جب یہاں کراچی میں گرمی اپنے جوبن پر تھی مجھے ڈھاکہ چلنے کی پیشکش ہوئی۔ ڈھاکہ جو کبھی اپنا شہر تھا،  سابق مشرقی پاکستان اور اب بنگلہ دیش کا دارالحکومت۔   ہوا کچھ یوں کہ ہمارے دوست عبدالرحمٰن کی شادی ڈھاکہ میں سکونت پذیر ان کے چچا کی بیٹی سے طے پاگئی تھی اور وہ فی الحال نکاح  کے غرض سے ڈھاکہ جارہے تھے اور بضد تھے کہ آپ بھی ساتھ چلیں۔  وہ چونکہ واقفان حال میں سے تھے لہذا ساتھ ہی ساتھ سفری فنڈ میں حصہ ڈالنے  کی پیشکش بھی کرگئے۔ اب اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم نے فورا ہامی بھرلی اور ساتھ ہی اس راہ میں آنے والی مشکلات سے نمٹنے کی تیاری کرنے لگے۔ سب سے پہلی مشکل تو گھر والوں سے اجازت اور فنڈز کا انتظام تھا جو خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ دوسری اہم مشکل دفتر سے ایک ماہ کی چھٹی تھی۔ بڑی مشکل سے پندرہ دنوں کی چھٹی ملی۔ بس پھر کیا تھا ہم فورا ڈھاکہ جانے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

20 مئی کی شام کو ہم ڈھاکہ میں تھے۔ میں کہیں پڑھا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے لکھا تھا کہ جب میں اسلام آباد آیا تو اسلام آباد کی شان اور خوبصورتی کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں ، میرا دل چاہا کہ میں اس مٹی کو چوم لوں اور جب میں اسے چومنے کے لیے اسلام آباد کی ایک سڑک پہ جھکا تو مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان کے پٹ سن کی خوشبو آئی۔ اب میرا خیال تھا کہ ہم سے آزادی کے بعد بنگلہ دیش شاید ایک فلاحی ریاست بن چکا ہوگا۔ کیونکہ اب  پٹ سن سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ بنگلہ دیش واسیوں پر ہی خرچ ہورہا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے ہر بنگالی آسانی سے استفادہ کررہا ہوگا۔ غربت مک گئی ہوگی۔ روزگار کی فراوانی ہوگی۔ بہترین انفرا اسٹرکچر تعمیر ہو چکا ہوگا۔ لیکن وہاں پہنچنے کے بعد یہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ کہ وہاں بھی 'دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے' اور 'پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے'۔

شروع کے چار پانچ دن تو شادی کے ہنگاموں میں ہی گذر گئے اور اس دوران بنگالی کلچر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جب بوریت زیادہ ہونے لگتی تو آس پاس کے علاقوں کی سیر کو نکل جاتے ۔ ہماری رہائش گاہ سے کچھ ہی دور ایک عارضی کیمپ ہے جو پچھلے 30 سالوں سے قائم ہے۔ یہ محصورین کا ایک کیمپ ہے جہاں غیر بنگالی [بہاری] قیام بنگلہ دیش کے فورا بعد سے ہی محصور ہیں۔ ان کا جرم  بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت اور مادر وطن کو دوٹکڑے ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران اور بعد میں تقریبا دس لاکھ سے زائد غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی املاک لوٹ لی گئیں۔ ان کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں ان کیمپوں میں محصور کردیا گیا۔ ان کیمپوں میں ان کی تیسری نسل پاکستان آنے کے انتظار میں پروان چڑھ رہی ہے۔  ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ان کیمپوں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

ایک دن یونہی سیر کے دوران ایک مسجد میں شیبر کے کچھ ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔  اسلامی چھاترا شیبر بنگلہ دیش کی معروف طلبہ تنظیم ہے۔ 16 دسمبر 1971 سے پہلے یہ اسلامی چھاترا شنگھو [اسلامی جمعیت طلبہ]  کے نام سے معروف تھی۔ سقوط ڈھاکہ کہ بعد اس پر مکتی باہنی سے مقابلے اور مادر وطن کو متحد رکھنے  کے لیے البدر نامی تنظیم قائم کرنے پر غداری کا الزام لگا کر پابندی عائد کردی گئی ۔ اس کے کارکنوں کو چن چن کر شہید اور پابند سلال کیا گیا ۔ 18 ستمبر 1979 کو اس تنظیم نے اسلامی چھاترا شیبر کے نام سے اپنی سرگرمیوں کا دوبارا آغاز کیا جس کا مطلب ہے اسلامی کیمپ برائے طلبہ یا اسلامک اسٹوڈینٹس کیمپ۔ آج یہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور اثر انگیز طلبہ تنظیم ہے۔

ان بنگالی دوستوں سے جب کبھی ملاقات ہوتی ہم پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات پر باتیں کرتے۔ اسلامی تحریک کی اثر انگیزی اور پیشرفت پر تبادلہ خیال کرتے۔ ایک دن شیبر کے ساتھیوں کی رہنمائی میں ہم نے دریائے بوڑھی گنگا کی سیر کا پروگرام بنایا۔ اور اگلے دن عصر کی نماز کے بعد ہم بوڑھی گنگا کے کنارے موجود تھے۔ یہاں آنے سے پہلے میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ دریائے گنگا بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے بعد بوڑھی کیوں ہوجاتی ہے؟ اور پھر خود ہی اس بارے میں ایک مفروضہ قائم کرلیا کہ شاید ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکل کر ہندوستانی ریاستوں اتراکھنڈ ، اترپردیش، بہار، جھاڑکھنڈاور مغربی بنگال سے ہوتی ہوئی ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے جب دریائے گنگا بنگلہ دیش میں داخل ہوتی ہے تو بوڑھی ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ مفروضہ یہاں آکر غلط ثابت ہوگیا۔

[nggallery id=1]


یہاں اس کے بارے میں ایک داستان مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں بوڑھی گنگا دریائے گنگا کے دریائی نظام کا حصہ تھی۔ لیکن صدیوں پہلے یہ دریائے دھلشواری کے ذریعے ایک نئی جگہ سے بہتا ہوا خلیج بنگال میں گرنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ دریائے گنگا اور دھلشواری سے اس قدر دور ہوتا گیا کہ اسے ایک نیا نام دینے کی ضرورت پیش آئی، لہذا اس کا نام بوڑھی گنگا پڑگیا۔ بنگالی لہجے میں اسے بوڑی گونگا کہتے ہیں۔ اس دریا کی ایک خاص بات اس میں سمندر کی طرح مدوجزر[ٹائیڈ] کا آنا ہے۔یہ 30 سال پہلے بیتے خونی واقعات کیا شاہد بھی ہے کہ جب اپنے ہی دشمن کے ہاتھ کٹھ پتلی بن کر کھیلنے لگیں اور نااہل حکمران اور غداران وطن قوم میں زبان، رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے لگیں تو کیسے کیسے المیے جنم لیتے ہیں۔

ہمارا بچپن پٹنہ، جمشید پور اور ڈھاکہ کے نواح میں بہنے والے دریائوں اور ندیوں کے قصے، کہانیاں سنتے گذرا لیکن آج میں یہاں ان سب قصوں کو بھلائے بوڑھی گنگا کے کنارے کھڑا ہوں۔ دریاء کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوا میرے بالوں کو بڑی محبت سے سہلا رہی ہے اور میں اس میں ماں کے پیار کا لمس محسوس کررہا ہوں۔ نہ جانے کیوں مجھے ماحول میں ہر طرف سوگواریت سی محسوس ہورہی ہے۔ یہ کبھی اپنا وطن تھا جس کے گلی کوچوں میں ہمارے والدین نے اپنا بچپن و جوانی گذارا۔ لیکن آج مجھے یہاں آنے کے لیے ویزے کی ضرورت پڑی ہے۔ دریاء کا پانی سبک رفتاری کے ساتھ بہتا چلا جارہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بوڑھی گنگا خاموشی کی زبان میں مجھ سے باتیں کررہی ہے۔ وہ مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ کیسے آئے ہو؟ کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا ٹوٹے ہوئے رشتوں کی تجدید کے لیے اسے دوبارہ استوار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اور پھر فیض کی وہ نظم پڑھ ڈالی جسے بنگلہ دیش جانے والے اکثر نام نہاد دانشور ہر مجمعے میں پڑھ ڈالتے ہیں:
ہم کے ٹھرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
اب بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم دوبارہ ایک ہوسکتے ہیں؟ کیا تمام گلے شکوے دور ہوسکتے ہیں؟ کیا خون کے دھبے واقعی دھل سکتے ہیں؟ مجھے لگا کہ بوڑھی گنگا مسکرا رہی ہے، اور شاید فیض ہی کی نظم گنگنارہی ہے:
موتی ہو کہ شیشہ، جام کہ دُر
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا ، سو چھوٹ گیا

...

یہ ساغر، شیشے، لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں، تو فقط
چبھتے ہیں، لہو رُلواتے ہیں

...

تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

ماحول کا بوجھل پن کچھ اور بڑھ گیا ہے۔ مجھے جنرل مانیک شا کی آواز گونجتی ہوئی محسوس ہوئی جسے سن کر میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ اندرا گاندھی کہتی ہے  کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔اف میں نے اپنا سر پکڑ لیا، یہ آج مجھے یاسیت نے کیوں گھیر رکھا ہے؟ میں نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا وہ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میں نے سوچا کہ میں یہاں تفریح کے لیے آیا ہوں اور پھر میں ان افسوسناک خیالات پیچھا چھڑا نے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک مجھے اپنے قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ دیکھا تو شوکت اسلام کھڑا تھا۔ میں نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اس سے سوال کیا، کیا واقعی دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا؟ شوکت اسلام اردو سمجھ جاتا ہے لیکن بول نہیں سکتا۔ اس نے کچھ کہنے کے بجائے ایک آواز کی طرف متوجہ کیا۔ قریب ہی کسی مسجد سے مغرب کی آذان کی صدا بلند ہورہی ہے۔ موذن انتہائی پرسوز آواز میں پکار رہا تھا۔
"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں" اور میں مسلمان ہوں۔

"میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں"  اور میں مسلمان ہوں۔

سورج دور مغربی افق میں غروب ہورہا ہے۔ میں نے ایک الوداعی نظر بوڑھی گنگا پر ڈالی۔ الوداع بوڑھی گنگا الوداع۔ زندگی رہی تو پھر آئونگا۔۔۔۔۔۔

21 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

سبق تو پھر بھی نہ سیکھا ہم نےبنگلہ دیش بنانے والوں سے وہی ایک دوسرے سے حقوق وصول کرنےکے چکر میں ایک دوسرے کی گردن مار رہے ہیں۔
آپ تو کراچی کے ہو روزانہ اذان کی آواز کانوں میں آتی ہوگی اور روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والوں کو دفناتے ہوگے۔
پنجابیوں کو سبق سکھانے والے ان کی گیس بند کئے بیٹھے ہیں۔سردیوں سبزی کی مولیاں کھاو تے گیس بناو۔پختوںخواہ میں چلے جاو صوبہ ہزارہ کا نعرہ ھے۔وزیرستان والوں کو روزانہ بھونا جاتا ھے۔بلوچستان کاا پنا تماشہ ھےوہی گند ادھر بھی ھے اور اذان سب سن رھے ہیں سب کے سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعیم اکرم ملک said...

اعلٰی تحریر ہے۔۔۔ بلاشبہ یاسر نے سچ کہا۔۔۔ ہر طرف افرا تفری مچی ہے۔۔۔ ایک بنگلہ دیش بنا کر ہمارے لوگوں کو سکون نہیں ملا۔۔۔ جو مزید زور و شور سے لگے ہوئے ہیں۔۔۔
تصاویر اچھی ہیں، لگتا ہے کافی کام لیا جاتا ہے وہاں دریائوں سے۔۔۔ ہمارے یہاں تو کوئی خاص نقل و حرکت کے لئے دریا استعمال نہیں ہوتے۔۔۔

جعفر said...

عمدہ لکھا ہے۔ سفرنامہ قسم کی چیز بن جاتی اگر آپ جذباتی نہ ہوئے ہوتے۔

خاور کھوکھر said...

بڑی اداس کر دینے والی تحریر ہے

صفدر علی صفدر said...

اللہ ہمارے حال پر رحم کرے...آمین!

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

وقار
نطفہ مشکوکہ گالی نہیں ھے۔
اس لفظ میں فلسفہ چھپا ھے۔

محمدوقار اعظم said...

پائی جی اس میں اذان کا کیا قصور؟
جب اذان کی آواز آتی ہے تو پھر ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں محمود و ایاز۔ وہاں کوئی مہاجر، سندھی، پنجابی نہیں ہوتا۔ باہر آتے ہی سب شاید بھول جاتے ہیں۔۔۔۔۔

محمدوقار اعظم said...

نعیم اکرم ملک صاحب، تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ اور بلاگ پر خوش آمدید۔ میں آپ سے متفق ہوں جی ہرطرف افراتفری مچی ہے۔

جی ہاں بنگلہ دیش میں ہائی ویز اور ریلوے کا سٹرکچرب اتناترقی یافتہ نہیں ہے اور اندرون ملک نقل و حمل کے لیے دریائوں کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لایا جاتا ہے.

محمدوقار اعظم said...

خاور جی ہم خود اداس تھے اس لیے تحریر ایسی ہوگئی...

عثمان said...

اگرچہ آپ کی پوسٹ حد سے ذیادہ جذباتی ہے اور مسائل سے صرف نظر برتی گئی ہے۔ لیکن فی الحال موضوع کی حوالے سے یہ کہوں گا کہ تقسیم ہندوستان اور پھر پاکستان کا سب سے ذیادہ نقصان جنہوں نے اٹھایا ہے وہ بہاری ہیں۔ ایک عرصے تو تک دردناک طریقے سے بنگہ دیش کےمہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور رہے۔ بھلا ہوا کہ اب جا کر بنگالی حکومت نے انھیں بلاآخر اپنا شہری تسلیم کرلیا ہے۔
باقی یہ ہے کہ نعروں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ صرف چھپائے جاتے ہیں۔ امید ہے مستقبل کے نوجوان ہماری نسبت کم جذباتی اور حقیقت پسند ہوں گے۔ اور مسائل کے حلے کے لئے دوسرے دھوکہ بازوں پر انحصار کی بجائے اپنا مستقبل کامیابی سے خود ہی بنا پائیں گے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بہر حال میری رائے میں شائستگی ہر صورت بحال رہنی چاہئیے۔ نامعقول تبصرے حذف کر دئیے جانے چاہئیں اور بات ایسے تبصرہ نگاروں پہ پابندی کی حد تک محدود رہنی چاہئیے۔

بہاری کیمپوں کے بارے میں جو آپ نے لکھا ہے انھیں اندر سے جس جس نے دیکھا ہے یا انکی کوئی مووی دیکھی ہے وہ گواہی دیں گے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ان کے احسان کا بدلہ احسان نا شناسی سے دیا ہے۔ المیہ سا المیہ ہے۔ جنہوں نے پاکستان کے لئیے ایک بار ہجرت کی۔ دوبارہ اپنا سب کچھ پاکستان کے مستقبل کے لئیے نچھاور کیا اور باالفاظِ دیگر پاکستان انہیں بھول گیا۔

تحریر میں "پچھتاوہ" سر چڑھ کر بولتا ہے۔ "عبرت" بین کرتی ہے۔ مگر میرے دیس میں یون لگتا ہے جیسے سبھی اس المیے کو بھول کر نئے المیوں کا جتن کرنے میں لگے ہیں۔
خدا ہماری حالت پہ رحم فرمائے۔ آمین

لاجواب تحریر ہے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

تصوریں دیکھنے سے پاکستان کی نسبت دو فرق واضح محسوس ہوتے ہیں۔
اول۔: تصویروں میں انسانوں کےجھمگٹے نظر نہیں آتے۔
دوئم۔: زمین اور سڑکوں پہ گندگی کے انبھار تو کُجا کاغذ یا پلاسٹک لفافہ تک نظر نہیں آتا ۔

محمدوقار اعظم said...

عثمان: جناب میرے یہ پوسٹ مسائل کا اھاطہ نہیں کرتی۔ میں نے اس میں سفر ڈھاکہ کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ آپ نے جذبات کی بات کی تو جناب کوئی بھی انسان جذبات سے عاری کیسے ہوسکتا ہے؟

بنگلہ دیش کی ھکومت نے انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہاں انہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہیں تو بنگلہ دیش کی شہریت ھاصل کرسکتے ہیں۔ اور شہریت کے ھصول کے باوجود وہ وہاں پر دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ تعلیم، صھت، روزگار غضیکہ ہر شعبہ زندگی میں انہیں مصیبتوں کا سامنا ہے۔

محمدوقار اعظم said...

جاوید گوندل صاحب میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کے واہیات تبصروں کو حذف کردوں لیکن جب اس طرح کے تبصروں کا سلسلہ دراز ہوجائے تو زبان پھسل جاتی ہے۔ آئندہ کوشش کرونگا کہ اس سے احتراز کیا جائے۔

تعریف کا شکریہ۔۔

ابوشامل said...

وقار، سب سے پہلے تو ایک گلہ کرلوں کہ آپ نے یہ سفر پچھلے سال کیا اور احساسات اب قلمبند کر رہے ہیں؟ دل سے جو آہ نکلتی ہے اس کو جتنا جلدی قلمبند کر لیا جائے اتنا زیادہ اثر رکھتی ہے، وقت گزرنے کے بعد بہت سارے احساسات قلم کا ساتھ نہیں دے پاتے یا صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں ہوپاتے۔
دوسری بات یہ کہ نازیبا تبصروں کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائیں اور اس پالیسی کا اطلاق خود پر بھی کریں۔ یعنی نہ نازیبا تبصروں کو برداشت کریں اور نہ خود کریں۔

اعظم طارق کوہستانی said...

سلام بھائی!
لکھتے تو آپ بہت اچھا ہے...آپ سے کہا بھی تھا کہ جسارت میں بھجوادیا کریں...مشرقی پاکستان کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھ کر دیں....کراچی اپ ڈیٹس پر شائع کر دوں گا....بس تھوڑا سا ربط مضبوط رکھیں......جملے تسلسل سے چلنے چاہیے......

محمدوقار اعظم said...

ابوشامل: جناب آپ کا گلہ بالکل جائز ہے۔

نازیبا تبصروں کے حوالے سے میری کوشش ہوگی کہ آئندہ انہیں بلاگ کا حصہ نہ بنائوں اور نہ خود اس میں لوث ہوں۔ ان تبصروں کی وجہ سے جو کوفت آپ حضرات کوہوئی ہے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

محمدوقار اعظم said...

اعظم طارق کوہستانی: واعلیکم السلام
جناب آپ تمام حضرات کی تعریفوں سے تو ہمارا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ میرا خیال تھا کہ یہ مضمون کچھ طویل ہوگیا ہے اور نہ جانے اخبار کے معیار پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت اعلیٰ تحریر ہے. سقوط مشرقی پاکستان سے زیادہ افسوسناک بات یہ کہ ہم نے اس سانحے سے کچھ نہیں سیکھا. ابھی بھی حالت وہی بلکہ زیادہ دگرگوں ہو گئے ہیں. یہاں تو ہر شاخ پر ایک نادر و نایاب پرندہ بیٹھا ہوا ہے گلستان کا کیا انجام ہونے جا رہا ہے اس کی پیش گوئی کے لئے کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں .

عمران اقبال said...

بنگلہ دیش نا بنتا۔۔۔ مشرقی پاکستان کی قدر کی جاتی تو۔۔۔
پاکستانی جدا نا ہوتے۔۔۔ پاکستان کی قدر کی جاتی تو۔۔۔
بھائی دشمن نا بنتے۔۔۔ “لا الہ الا اللہ“ کے رشتے کو سمجھا جاتا تو۔۔۔

وقار اعظم صاحب۔۔۔ لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔۔۔ کس نے کیا۔۔۔ وہ ہم کبھی جان نا پائیں گے۔۔۔ مکتی باہنی کے ہاتھ خون میں رنگے ہیں یا پاکستانی فوج کے۔۔۔ موجودہ بنگالی عوام کی بغاوت تھی یا ہمارے سیاستدانوں کی غداری۔۔۔ ہم کوئی نتیجہ ہر گز نکال نہیں پائیں گے۔۔۔ مورخ اپنا اپنا نظریہ بتاتے بتاتے مر جائیں گے۔۔۔ لیکن ہم کوئی سبق نہیں سیکھیں گے۔۔۔ ہم آج بھی وہی غلطیاں بلوچستان اور سندہ میں دوہرا رہیں ہیں جو 1971 میں ہم نے سوچ سمجھ کر سرزد کی تھیں۔۔۔
جانے ہم سب پچاسیوں عرب و عجم مسلم ممالک میں تقسیم ہونے کی بجائے “ایک“ امت مسلمہ کب بنیں گے۔۔۔ کب ہمیں کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس ہوگی۔۔۔ کب ہم میں سے عرب و عجم، زات پات، رنگ و نسل اور فرقہ پرستی ختم ہو گی۔۔۔ کب ہم صرف اور صرف “مسلمان اور مومن“ کہلانے میں فخر محسوس کریں گے۔۔۔

جوانی پِٹّا said...

مجھے علم نہیں تھا کہ آپ اتنا اچھا لکھتے ھیں۔
یہ اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے مضمون میں جذبات کا مصالحہ ڈالا، بلکہ اس لیے کہ لکھنے کا سٹائل، الفاظ کے ذخیرے کا استعمال، جذبات، نامی سارے مصالحے بہت بیلنسڈ مقدار میں ہیں۔

خوش رہیں۔

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here