روشن خیالیے - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Sunday, November 28, 2010

روشن خیالیے

آج کل ہر طرف دو چیزوں کا خوب چرچا ہے۔ ایک توہین رسالت کا قانون اوردوسرا ریفامڈ جی ایس ٹی۔ ہماری سیاسی جماعتیں تو آر جی ایس ٹی کے معاملے میں بیغیرتی کی حد تک جوڑ توڑ میں لگی ہیں لیکن بھونچال تو شاید توہین رسالت کے قانون پر آیا ہوا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں، ختم کردو، تبدیل کرو، ظالمانہ قانون ہے۔ دین کے ٹھیکداروں کا کارنامہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہیں صرف ان 700 افراد کا خیال آرہا ہے جن پر اس قانون کے بننے کے بعد سے اب تک مقدمات قائم کیے گیے۔  ان سات سومیں سے آدھے سے زیادہ افراد مسلمان ہی ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں صرف عیسائیوں کا غم کھائے جارہا ہے۔ جی بڑے ہی مظلوم ہیں، پسے ہوئے طبقات سے ان کا تعلق ہے۔ کوئی حقوق میسر نہیں ہیں، بڑا ظلم ہوتا ہے جی ان کے ساتھ۔ باقی اٹھارہ کروڑ پاک لوگاں کو تو ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔ گاوّں دیہاتوںمیں وہ اپنے زمیندار کے برابر ہی بیٹھتے ہیں۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے جی ادھر۔

یارلوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسا ظالمانہ قانون ہے کہ دو آپس میں لڑتے افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ جہاں بیٹھ کر یہ اس طرح کی باتاں کرتے ہیں وہاں اگر آپس میں کوئی تلخ کلامی ہوجائے تو عدالت پہچ جاتے ہیں ہتک عزت کا دعویٰ کرنےلیکن ادھر برگزیدہ ترین ہستیوں کی ہتک پہ قانون کے حرکت میں آنے پر بھی واویلا مچاتے ہیں۔

آزادی اظہار اور انسانی حقوق وغیرہ ان کے پسندیدہ نعرے ہیں جو یہ اکثر و بیشتر زور و شور سے لگاتے ہیں جیسے سوات میں خاتون پر کوڑے برسانے کی متنازعہ وڈیو پر گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن جرمنی کی شہیدہ حجاب مروہ الشربینی کہ جسے بھری عدالت میں چاقو کے 16 وار کر کے شہید کردیا گیا کے معاملے پر زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ لال مسجد کی طالبات جب طوائفوں کے اڈے کو بند کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پہ اپنے اس حق کے حصول کے لیے نعرے لگاتی ہیں کہ "میں ناچوں گی میں گائوں گی" لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا، سات سال تک حراست کی اذیت اور پھر بغیر جرم ثابت ہوئے 76 سال کی سزا پر ان کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ان   کے نزدیک کسی بازاری عورت کی عصمت جس کی کوئی عصمت ہی نہیں عافیہ صدیقی کے مقابلے میں معتبر ہے۔ بات جب لاپتہ افراد کی کی جائے یا گوانتہ ناموبے میں قید بے گناہوں کا ذکرجن پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تو انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔

یہ ثقافتی وفود اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کے لیے خوب مرے جاتے ہیں، اپنے لیے نہیں عوام کے لیے۔ وہ عوام جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ایک غریب مزدور جس کے دن کے بارہ سے سولہ گھنٹے محنت مزدوری میں گذرتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کا پیٹ بھر سکے۔ اب وہ بیچارہ کسی فیشن شو کا ٹکٹ خریدے یا اپنے بچوں کے لیے روٹی؟ ہاں اسی بہانے روشن خیالیوں کے مزے ہوجاتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کون سی ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں چاہتے ہیں؟ کوئی بھی چینل کھولیں اور جی بھر کر ان سرگرمیوں سے محظوظ ہوں۔ اس کے باوجود الزام ملا پر کہ ہمیں ٹھیک سے عیاشی نہیں کرنے دیتے۔

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب  ان کے سابقہ قبلہ و کعبہ انجہانی سوویت یونین حیات تھے تو یہ ہمیں اس وقت بھی طرح طرح کے درس دیا کرتے تھے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ اپنے آپ کو ترقی پسند اور دوسروں کو رجعت پسندکہتے پھرتے۔ یہ نام نہاد ترقی پسند شعرا اور ادیب جب کہیں اکھٹے ہوتے تو اپنے ہر اجلاس میں کو ئی نہ کوئی قرارداد منظور کرتے کہ فلاں کو رجعت پسند شاعر اور فلاں کو رجعت پسند ادیب قرار دیا جائے۔ ایک بار تو حد کردی ۔ قرارداد پیش کی گئی کی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو رجعت پسند شاعر قرار دیا جائے۔ وہ تو گھر جل گیا میرا میرے گھر کے چراغ سے کے مصداق اندر سے کچھ کچھ شدت پسند فیض اور قاسمی صاحب وغیرہ ڈٹ گئے کہ ہمارے جیتے جی ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہاں تیسری دنیا  کے ملکوںمیں آزادی اظہار، انسانی حقوق وغیرہ کی ٹھیکیداری انہی  روشن خیالیوں کے نام ہے ۔

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ارد گرد روشن خیالیوں کا جمعہ بازار لگا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک، بھانت بھانت کی بولیاں، بھانت بھانت کے مشورے۔ عوام بیچاری سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ کیا کرے ہاں روشن خیالیوں کا بھلا ہوجاتا ہے۔ ڈالر اور پونڈ میں ادائیگی چلتی رہتی ہے۔

13 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

یہ روشن خیالئے وہی ہوتے ہیں جی۔
جب امریکہ پہونچا تو چھلانگ لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا قبضہ کیا کرنا آقاوں کیلئے خدمات پیش کردیں۔ امریکہ میں ویٹری کرتے کرتے وہ مارا کا نعرہ لگا کر قراقلی ٹوپی پہن کرافغانستان کے صدر صاحب بن گئے۔ ان روشن خیالیوں کے دین کا فہم جو انہیں پسند ہوتا ھے وہ ہی ہوتا ھے. ان روشن خیالیوں کا جمعہ نہیں لگتا اتوار بازار لگتا ھے۔ان کے ابا اماں کو کوئی گالی دے تو لال پیلے ہو جائیں گے۔ توہین رسالت کی بات ہوتو تحمل درگذر کا خطبہ پڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حدیث کے منکر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ پر درگذر فرمایا تھا۔ ھجوگوئی کرنے والوں کے بارے میں حکم غائب کر دیتے ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال said...

جن کی فکر ميں يہ روشن خيالئے مرے جاتے ہيں جو ان کی رنگين زندگی کے خلاف نہيں ہيں ۔ باقی علاقوں کا مجھے علم نہيں اسلام آباد ميں روشن خياليوں کے ان محبوب غربوں کا يہ حال ہے کہ گھر ميں چھ سال تک کے بچے سميت اگر دس آدمی ہيں تو دس کے دس دھاڑی لگاتے ہيں ۔ کوئی سڑک پر دس پندرہ روپے کا ايک پھول بيچ رہا ہے کوئی زبردستی آپ کی کار کا شيشہ صاف کر کے دس روپے وصول کرتا ہے ۔ ماں باپ سی ڈی اے کے ملازم ہوتے ہيں مگر جن گھروں کے سامنے صفائی کرتے ہيں اُن سے ماہانہ وصولی کرتے ہيں ۔ بڑے بيٹے سڑک کے کنارے پھولوں کی دکان لگا زيادہ گھاس پھوس زيادہ اور کم پھول ملا کر ڈبل قيمت وصول کرتے ہيں ۔ سرکاری زمين پر ناجائز قبضہ کر کے پکے گھر بنائے ہوتے ہيں جن کو روشن خياليئے کچی بستی کا نام ديتے ہيں ۔ ان گھروں کی ايک منزل يا آدھا مکان کرئے پر ديا ہوتا ہے ۔ پھر امريکہ سے حکم آتا ہے تو روشن خيالئے اس کے حق ميں جلوس نکالتے ہيں اور امريکا کے زرخريد ہمارے حکمران مالکانہ حقوق دے ديتے ہيں
جو اصلی غريب اور مزدور ہيں وہ بيچارے فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے پُشتوں پر سوتے ہيں

جعفر said...

وہ جی آج کل ان کی ایک بات اور بڑی سپرہٹ ہے جسے یہ مشہور عالم نظم کی طرح ہرجگہ پڑھ دیتے ہیں کہ ... تم تو جزاک اللہ گروپ ہو.... ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے والے...
لیکن کیا یہ روشن خیال ایک دوسرے کے کپڑے اتاردیتے ہیں اختلاف رائے پر؟
ناں جی... یہ تو صئی حاجی بگو حاجی بگو کھیلتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ
مشرف کو یا الطاف انکل کو کچھ کہہ دیں تو یہ زبانوں اور قومیتیوں کا سہارا لے کر مخالفین کی تحریری چمڑی ادھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں. کھالوں کے مسئلے پر بغیر کسی کیس کے انسان قتل کردیتے ہیں. ان کا ہاتھ دروازے میں تب ہی آتا ہے جب کہیں اسلام، مسلمان، رسالت وغیرہ کا ذکرہو... رہے نام اللہ کا

کاشف نصیر said...

یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ میں کسی آسیہ نامی غریب خاتون کے خلاف نہیں ہوں اور نہ مذہبی جماعتیں آسیہ کے خلاف ہیں۔ اسکے گاوں والے اس غریب کے خلاف بھلے ہوتے ہوں۔
ہم تو اس قانون کے خلاف عبدل اللہ بن ابی برگیڈیٹ کے روشن خیالوں کے پراپیگینڈے اور منافقت کے خلاف ہیں۔ بہرحال عثمان کی یہ بات کسی حد تک قابل غور ہے کہ عادی گستاخوں اور حادثاتی گستاخوں کے بیچ کچھ نہ کچھ تمیر ضرور ہونی چاہئے اور میرے خیال سے اس قسم کی سخت سزاوں کے لئے شہادتوں کے طریقے کار کو بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اگر قانون ختم ہوا یا سزا بدلی گئی تو یاد رکھیں پھر انصاف سڑکوں پر ہوگا اور مجھ جیسا جینز پہن کر یونیورسٹی جانے والا نیا منٹدا بھی ایسے انصاف میں سب سے آگے آگے ہوگا۔

کیونکہ میرے رسول کا جو غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے

ظفر اعظم said...

قرآن نے منافقین کی قسمیں بیان کیں ہیں.روشن خیالے اس گروہ کا عکس پیش کرتا ہے جس کا سرغنہ عبداللہ بن ابی تھا.اگرچہ اللہ کے رسول (ص) نے اسکی نماز جنازہ پڑھای اور اپنے تن کا کپڑا مبارک بھی اسکے کفن کیلے عطا کیالہکن اللہ پاک کی طرف سے اسکی مغفرت کا سامان نہ ہو سکا. اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-

محمدوقار اعظم said...

یاسر خوامخواہ جاپانی:: پیر و مرشد ہم بہت ہی فاش غلطی ہوگئی. واقعی روشن خیالیوں کا تو اتوار بازار ہونا چاہیے.

افتخار اجمل بھوپال:: صحیح کہا جی آپ نے. اصلی غریب مزدوروں اور محنت کشوں کا ٹھکانہ تو فٹ پاتھ ہی ہے جی. اٹھو، میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو.....

جعفر:: جناب اچھی توجہ دلائی ہے آپ نے. یہ تو میں بھول ہی گیا تھا. ویسے مقولا خوب استعمال کیا آپ نے حاجی بگو والا.

کاشف نصیر:: او بھائی تو نے کیا خوب نام دیا ہے انہیں ہیں جی، عبداللہ بن ابی بریگیڈ. میرے خیال میں تو توہین رسالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں ہے. ہاں جھوٹا الزام لگانے والے کو نشان عبرت بنانے کی کوئی شق بھی ہونی چاہیے. اور تم لوگوں نے باز نہیں آنا ہیں، جب دیکھو ماشااللہ، جزاک اللہ.
:wink:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین:: زبرست جناب میری پوسٹ سے اچھا تو آپ کا تبصرہ ہے. بہت ہی جامع اور مدلل انداز سے آپ نے ان روشن خیالیوں کے کرتوت واضح کیے ہیں. اسلام کو دیس نکالا دینے والوں کو نکال باہر کرینگے جی انشااللہ.

ظفر اعظم:: بلاگ پر خوش آمدید. میں آپ سے بالکل متفق ہوں.

اور آخر میں جزاک اللہ بریگیڈ کی طرف سے سب کو "جزاک اللہ"

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

ماشا الله خوب لکھا ہے روشن خیالی پر .
میں تو سمجھتا ہوں کہ روشن خیالی بذات خود ایک بہت برا موضوع بن چکی ہے. ایک علم کا سٹیٹس حاصل کر لیا ہے اس نے .
کچھ باتیں میں نے اکثر روشن خیالوں میں دیکھی ہیں
١) انکی اکثریت کچے پکّے علم کے ساتھ بحث کرتی ہے.
٢) بلا وجہ ١٨٠ درجہ کی مخالفت اپنا فرض سمجھتے ہیں.
٣) نظریات میں انتہا درجے کے انتہا پسند ہوتے ہیں اگرچہ عمل کی ہممت نہیں ہوتی.
٤) جن دلیلوں کے ساتھ یہ بات کرتے ہیں وہی دلیل آپ انکے جواب میں دیں تو سنی ان سنی کر جاتے ہیں.
٥) عقل کی بات کرتے ہیں مگر اپنے نظریات میں کسی انتہائی مقلد سے کسی طرح مختلف نہیں ہوتے.
٦) فہم و فراست مستعارہوتی ہے ... جومغرب نے کہ دیا وہ انکے نزدیک ثبوت بن جاتا ہے
٧) پاکستان کو انڈیا اور امریکا کی نظر سے دیکھتے ہیں. پاکستان کے ہیرو انکے زیرو اور پاکستان کے زیرو انکے ہیرو. ڈاکٹر قدیر خان بدمعاش ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی امت کا بطل جلیل ، ڈاکٹر عافیہ مجرم اور ملعونہ آسیہ مظلوم
٨) دین سے انتہا درجے کا بغض ، سیاسی اسلام سے تو خدا واسطے کا بیر
٩) اپنے نظریات کے اطلاق کے لئے عجیب و غریب اصول یعنی اگر ایک لاکھ مدرسوں میں سے کسی ایک مدرسہ کا طالب علم انتہا پسند بن گیا تو انکے نزدیک ہر مدرسہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہوا پایا جاتا ہے.
١٠) ہر قبل فخر اسلامی اور قومی ورثہ کی نفی ، استہزا اور توہین

میں اسی بنیاد پر کہتا ہوں کہ روشن خیالی یا لبرلزم ایک علیحدہ مذھب ہے . اسکے عقید بھی نا قابل ترمیم ہیں

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

واللہ!۔ ڈاکٹر صاحب! آپ نے تو دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

کوزے میں بند کرنے کی کوشش کہہ ہے۔ مکمل طور پہ دریا کو کوزے میں بند کرنا اسلئیے نہیں کہا ۔ کہ گرگٹ کی طرح ہر آن رنگت بدلنے والے روشن خیالوں کی ابھی بہت سی اقسام و خصوصیات سامنے آنا باقی ہیں۔

بہرحال۔ہت خوب۔ آپ نے نہائت مختصر مگر جامع تجزیہ کیا ہے

محمدوقار اعظم said...

ڈاکٹر صاحب آپ نے تو واقعی دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے. آخری جملہ تو خاص قابل توجہ ہے کہ روشن خیالی یا لبرلزم ایک علیحدہ مذھب ہے . اسکے عقیدے بھی ناقابل ترمیم ہیں.

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت شکریہ. میں نے تو بس کچھ عام سے مشاہدات کا بیان کیا تھا.

صفدر said...

یار... ان روشن خیالوں نے ہی وطن کا مستقبل تاریک کردیا ہے. پتا نہیں انہیں گالی دینا کیسا ہے مگر دل تو کرتا ہے کہ کوئی ایسا جامع لفظ ملے جو انکی اوقات پر پورا اترتا ہو... یار انہیں ذرا خوف نہیں آتا اللہ کے پسندیدہ دین کے خلاف اپنی بکواس کرتے ہوئے... اللہ رسول کے احکام کا ایسے انکار کرتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو... شرم نہیں آتی یہ کہتے ہوئے کہ ہم روشن خیال ہیں... ارے اتنے ہی روشن خیال ہیں تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں کیونکہ اسلام سے زیادہ روشن اور واضح چیز نہ کوئی تھی اور نہ قیامت تک ہوگی. خدا کے لئے جہالت کے اندھیروں سے نکلو... اور اسلامی خیالات کی روشنی میں آجائو ... کہ یہی اصل روشن خیالی ہے...

لطف الا سلام said...

جناب آپ کی قبیل کے رجعت پسند بھی باتوں کے شیر ہیں۔ جس اسلام کا آپ پرچار کرتے ہیں اس پر مکمل یقین ہوتا تو شیخ اسامہ کی بیعت کر کے کلاشنکوف اٹھا لیتے۔
آپ کو کیا کام گھر میں بیٹھنے سے اور نوکریاں کرنے سے۔

انکل ٹام said...

مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا ﴿۶۱﴾
پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور مارے گئے جان سے [۹۳]
ماشااللہ بہت اچھا مضمون لکھا ہے ، روشن خیالیے دوغلے لوگ ہوتے ہیں ۔

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here