ضرورت ہے، وینچر کپیٹلسٹ کی - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Saturday, May 29, 2010

ضرورت ہے، وینچر کپیٹلسٹ کی

یہ مبارک واقعہ 80ء کی دہائی میں پیش آیا اور واقعہ یہ ہے کہ ہم پیدا ہوئے تھے۔ والدین کا تعلق ہندوستان سے ہے جنھوں نے اپنی خوابوں کی سرزمین پاکستان کو پانے کے لئے دو دفعہ ہجرت کی۔ پہلے مشرقی پاکستان کی طرف اور پھر سابقہ مشرقی پاکستان سے بچے کھچے پاکستان کی طرف۔

ہم نے اس پرفتن دور میں کراچی میں آنکھیں کھولیں جب چہارسو جئے مہاجر کی صدا سے درودیوار گونج رہے تھے۔ ابھی ہم نے ٹھیک سے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ بشرا زیدی کا واقعہ وقوع پذیر ہوگیا۔ بشری زیدی نامی ایک طالبہ سڑک کراس کرتے ہوئےبس  کی ذد میں آکر جاں بحق ہوگئی تھیں۔ میرے وطن کی سڑکوں پر نجانے کتنی بشرائیں روزانہ ان شقی القلب بس ڈرائیوروں کی عجلت پسندی کی نظر ہوجاتیں ہیں لیکن مہاجر حقوق کے علمبرداروں نے اسے ایک پختون مہاجر مسئلہ بنادیا۔ شہر میں خوف کا عنصر رچ بس گیا۔ دونوں قومیتوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی اور پھر سانحہ علیگڑھ رونما ہوا۔ مادر وطن کے لئے دوبار اپنا سب کچھ لٹادینے والوں کی آزمائشیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔

اس زمانے میں ہم لوگ جہاں رہائش پذیر تھے اس کے اردگر اچھی خاصی پختون اکثریت آباد تھی لہذا شہر کی بدلتی ہوئی فضا کے پیش نظر ابو نے امی اور ہم تمام بچوں کو نانی کے گھر بھیج دیا اور خود وہیں رہے۔ والدین کے لئے تویہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن ہم اس بات کو ہضم نہیں کرپائے کے اپنے گھر کو چھوڑ کر یہاں کیوں آبسے ہیں۔ بہرحال حالات کے سازگار ہوتے ہی ہم واپس اپنے گھر آگئے۔
ہماری امی ایک سمجھداراور جہاندیدہ خاتون ہیں، ہم اکثر امی سے سولات کی بھرمار کرتے کہ یہ جئے مہاجر کیا ہوتا ہے؟ یہ پنجابی اور پٹھان کون ہیں؟ یہ ہمارے دشمن کیوں ہے؟ امی ہمارے منہ سے یہ سب باتیں سن کر حیران رہ جاتیں پھر وہ ہمیں سمجھاتیں کہ یہ مہاجر، پیجابی پٹھان تو ہمیں آپس میں لڑانے کی سازشیں ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں اور مسلمان تو آپس میں بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے سوالات ختم ہونے میں نہیں آتے، امی ہمارا ذہن دوسری طرف بٹانے کے لئے سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا سیرت صحابہ سے کوئی واقعہ سنانے لگتیں اور ہم اس سنتے ہوئے نندیا پور پہنچ جاتے۔ یہ ہماری امی کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ ہم کبھی کسی نسلی، لسانی یا فرقہ ورانہ تعصب کی شکار نہیں ہوئے۔
ہمارے ابو ایک کامرس گریجویٹ ہیں اور سید ابوالعلی مودودی کی تحریروں کے عا شق۔ اس بات سے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ۔۔۔۔۔ کتابوں سے انھیں خاص دلچسپی ہے لہذا ان کی ذاتی لائبریری میں مولانا مودودی، ابوالکلام آزاد، شبلی نعمانی، محمد اسد، سید قطب، مریم جمیلہ اور بہت سے دوسرے مصنفین کی کتابیں موجود ہیں۔ اسکول سے گھر آنے اور ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد ہمارا سب سے بہترین مشغلہ یہی ہوتا کہ ہم کوئی کتاب نکال کر اس کا مطالعہ کرنا شروع کردیں۔
پھر 90ء کی دہائی کا آغاز ہوا اور ہمیں اپنے اردگرد "فاروق دادا" اور "مبین ٹنڈا" جیسے کرداروں سے سابقہ پیش آیا۔ فاروق دادا سے تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ وہ صرف ہمارے علاقے ہی نہیں بلکہ پوری کراچی کے دادا تھے، اور مبین ٹنڈا کا تعارف یہ ہے کہ کسی حادثے میں ان کی بائیں ہاتھ کی دو انگلیان کٹ گئیں تھیں لیکن پھر بھی وہ بڑے ہی اسٹائلش انداز میں اپنے کاندھے سے اے کے 47 یعنی کلاشنکوف لٹکائے بائیک چلایا بلکہ اڑایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہمارا علاقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مخالفین کے لئے نوگوایریا ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے کی بہت سی افسوسناک یادیں آج بھی ہمارے ذہن پر نقش ہیں۔
پھر 1992ء آگیا۔ آپریشن کلین اپ کا آغاز ہوا، ایم۔کیو۔ایم حقیقی وجود میں آئی۔ اور مہاجر حقوق کے نام لیوا آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ اس دوران شہر کے درودیوار پر کچھ اس طرح کے نعرے تحریر ہوتے تھے
جوقائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدارہے۔
الطاف بھگوڑا لندن دوڑا۔
1971 کا بھگوڑا کراچی فتح کرنے دوڑا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم سب دوست کرکٹ کھیل رہے تھے کہ اچانک میدان سے متصل زیرتعمیر مکان میں کچھ  ساتھیوں کی آمد ہوئی، وہ اپنے ساتھ کسی مہمان کو بھی لائے تھے۔ یہ دیکھ کر ہم سب کو کھسکنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اچانک اندر سے ایک ساتھی برآمد ہوا اور کہنے لگا کہ

کوئی بات نہیں بھئی کھیلو کھلو، کچھ نہیں ہوا۔



چاروناچار ہم نے کھلینا شروع کیا لیکن اندر سے وقفے وقفے سے آنے والی چیخوں کی وجہ سے کسی کا بھی کھیل میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ پھر اچانک گولی چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد سب کا حوصلہ جواب دے گیا اور سب گھر کو بھاگے۔ مہمان کو ٹھکانے لگانے کے لئے محلے کے ایک صاحب کی ہائی روف کو استعمال کیا گیا۔ جن صاحب کی گاڑی استعمال ہوئی تھی ان کے بیٹے کا نام احسن ہے۔ انتہائی شریف اور قابل انسان۔ عمر تقریبا 26 سال۔ کچھ ہی دنوں بعد انھیں ان کے گھر سے گرفتارکیا گیا۔ ہمارے ابو اور دیگراہل محلہ انتہائی عجلت میں پولیس اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے لیکن انھیں دیر ہوچکی تھی اور ایک اور پولیس مقابلہ وقوع پذیر ہوچکا تھا۔ مہاجر حقوق کے نام لیوائوں کو ایک معصوم شہید مل چکا تھا۔
تو یہ تھے وہ حالات جن میں ہم پروان چڑھے۔ اب آپ ہی بتائے کہ ان حالات میں جب جانوں کے لالے پڑے ہوں ہم کس طرح اپنے آپ کو دور جدید کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تیار کرپاتے؟ ہم نے حال ہی میں کہیں پڑھا ہے کہ تخیل کے پر ہوتے ہیں اور وہ پُھر سے اڑ جاتی ہے لہذا ان سب سازشوں کے باوجود ہم نے اپنے تخیل کو کبھی باندھ کر نہیں رکھا۔ 93 میں جب ہم میٹرک سے کئی میل دور تھےابو گھر میں اپنے کام کے سلسلے میں کمپیوٹر لے آئے۔ یہ ایک 386 کمپیوٹر تھا جس کی ہارڈ دسک 256 میگا بائیٹ اور ریم 4 میگا بائیٹ تھی۔ بس جی ہمیں تو جیسے خزانہ ہاتھ آگیا۔ کبھی کار ریسنگ ہورہی ہے تو کبھی بائیک رائیڈنگ، کبھی اسٹریٹ فائیٹر سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو کبھی شطرنج کی بازی جمائی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر امی نے کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کا وقت متعین کردیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہم نے ایک پروگرامنگ سوفٹ وئر "جی ڈبلیوبیسک" کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کی اور اس میں جب ہم نے پرگرامنگ کے جوہر دکھائے تو ابو نے ہمیں کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔

میٹرک کرنے کے بعد ہم اور ہمارے چند دوستوں کے دماغ میں یہ خناس بھر گیا کے گیم بناتے کیسے ہیں۔ لہذا اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کے سی++ میں بنایا جاسکتا ہے۔ ابو سےکہہ کر رابرٹ لیفور کی کچھ کتابیں منگوائیں۔ کتابیں گو کہ انگلش میں تھیں لیکن ہم نے کسی نہ کسی طرح کام چلاہی لیا اور کچھ عرصے بعد "پیک مین" کی طرز کا ایک گیم بنانےمیں کامیاب ہوگئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم انٹر میں تھے۔ کمپوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا ہورہا تھا اور مائیکروسافٹ کے ونڈوز95 آپریٹنگ سسٹم کے بعد ونڈوز98 نے دھوم مچارکھی تھی۔ نت نئے سوفٹ وئر اور کمپیوٹر گیمز تخلیق ہورہے تھے جنھیں دیکھ کر ہمیں اپنا بنایا ہوا گیم بس ایویں بھی نہیں لگتا تھا۔ لہذا ہم نے گیم بنانے کا خیال دل سے نکال کر گیم کھیلنا شروع کیا۔

Commandos, Delta Force, Counter Strike, IGI

اور دیگر بہت سارے لیکن ان کو کھیلتے ہوئے ایک خیال دل میں کھٹکتا کہ ان میں دہشتگرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے۔  ہم کچھ کچھ شدت پسندانہ اور رجعت پسندانہ رجحانات بھی رکھتے ہیں لہذا ہم اور ہمارے کچھ شدت پسند دوستوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے گیم بنائے جائیں جن میں ہم افغانستان میں روسیوں اور امریکیوں کے چھکے چھٹرائیں، فلسطین میں صہیونیوں اور کشمیر میں بھارتی افواج کے۔ لیکن اس کے لئے مسئلہ کپیٹل کا تھا۔ اسی اثناء مِیں ہمارے ہاتھ حزب اللہ کا بنایا ہوا کمپیوٹر گیم "اسپیشل فورس" لگا جسے کھیل کر ہمارا سیروں خون بڑھ گیا۔

اس کے بعد بھی ہمارے تخیل نے ہمیں نچلے نہیں بیٹھنے دیا اور ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اینیمیشن فلمیں بنائی جائیں اور بچوں کو "پوگو" وغیرہ جیسے واہیات چینل دیکھنے سے بچایا جائے، لیکن مسئلہ وہی وینچر کپیٹل کا تھا۔ کیونکہ ہمارہے حاجی صاحبان فیشن ٹی وی اور کھانا پکانے کی ترکیب سکھانے والے چینلوں پر تو سرمایہ لگا سکتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔
ابھی ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ پاکستان میں فیس بک پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بلاگز کی دنیا میں پابندی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان زبردست بحث چھڑ گئی۔ پابندی کے مخالفین کے دلائل سن کرتو ہم دنگ رہ گئے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔ لہذا ہم نے اپنے تمام شدت پسندانہ رجحانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انکار اور فرار کو پس پشت ڈالتے ہوئے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔
بس جی اس کے بعد ہم نے اپنی تخیل کی چڑیا، نہیں چڑیا ذرا چھوٹا پرندہ ہے، تخیل کے شاہین کو ادھر اُدھر دوڑایا اور ہمارے ذہن میں ایک بہترین قسم کی ڈیٹنگ سائیٹ بنانے کا خیال درآیا جس میں فیس بک، ٹویٹر، مائی اسپیس، گوگل بز، اورکٹ اور دیگر سوشل نیٹ ورکس کی خوبیاں یکجاء ہوں۔ جہاں ہماری نوجوان نسل اپنے دل کی بات ایک دوسرے تک پہنجانے کے علاوہ دنیا میں ہر لمحہ ہونے والی نت نئی تبدیلیوں سے بھی آگاہ رہیں لیکن مسئلہ وہی ہے ۔۔۔۔۔

لہذا ضرورت ہے وینچر کپیٹلسٹ کی۔ ہم بصد احترام میرا بھائی موومنٹ کے روح رواں عزت مآب جناب خطاب حسین کی خدمت میں دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کراچی، حیدرآباد اور ملحقہ جاگیروں سے اکٹھا کیا جانے والاصرف ایک ماہ کا فنڈ [خبردار، کوئی اسے بھتہ نہ سمجھے] ہمارے اس پروجیکٹ کی نظر کرنے کے احکامات جاری کردیں۔ ہم یقینا کچھ ہی عرصے میں ان تمام سوشل نیٹ ورکس اور ڈیٹنگ ویب سائٹس کو پیچھے چھوڑ دینگے اور پھر اس سے اس قدر سرمایہ بھی حاصل ہوسکے گا کہ پھر فنڈ اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

لہذا ضرورت ہے وینچر کپیٹلسٹ کی۔۔۔۔

15 comments:

صفدر علی صفدر said...

دیکھئے وقار بھیا آپ کو یہاں لمبی لمبی بھڑکیں مارنے والے تو مل جائیں گے ، غیر قوم سے مرعوب ذہنیت بھی مل جائے گی ، اپنے نبی کا مذاق اُڑتا دیکھنے والے بھی مل جائیں گے اوراحتجاجا فیس بک بند کرنے والوں پر لمبے لمبے واہیات بلاگز لکھنے والے بھی مل جائیں گے مگر صد افسوس کے وینچر کپیٹلسٹ نہیں مل سکتا…
تو کوئی ایسا مطالبہ کیجئے جو پست اور مغرب سے مرعوب ذہنوں کےلئے آسان ہو…
ویسے اگر آپ کوئی اسلام مخالف کام کرنا چاہیں گے تو ضرور تعاون کرنے والوں کی لائن لگ جائے گی ۔۔۔ اور رہے یہ کند ذہن لوگ جنکے کمزور ایمان اُنہیں آئے دن راہ حق سے ڈگمگا تے رہتے ہیں۔۔۔تو اُنہیں مجھے صرف یہ کہناہے ۔۔۔ بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

محمدوقاراعظم said...

صفدرعلی صفدر: لگتا ہے آپ نے ہمارا آخری پروجیکٹ غور سے نہیں پڑھا، جناب اچھا خاصا روشن خیالانہ ہے. اس کے لئے تو۔۔۔۔
:lol:

ڈفر - DuFFeR said...

لے بھئی تُو تو پکڑا گیا
بھائی سے بچ گیا تو کسی بھین کے ہتھے چڑھ جائے گا
:D
اب اگر میں نے پوسٹ کی کھل کے تعریف کر دی تو دو گولی ٹی ٹی میرے حصے میں بھی آ سکتی ہے ;)
ڈیٹنگ سائیٹ فری ہو گی نا؟
مجھے میری پسند کا یوزر نیم دینا، دیکھ بھائی نی، پلیز

جعفر said...

وہ جی سو سنار کی اور ایک لوہار کی سنا تھا
اس کی عملی تفسیر آپ نے پیش کردی ہے

محمدوقاراعظم said...

ڈفر:: ڈیٹینگ سائیٹ بالکل فری ہوگی. آپ پہلے سے یوزر نیم کی عرضی بھیج دیں کیونکہ وینچر کپیٹلسٹ کا بندوبست ہوتے ہی. دھوم مچ جائے گی اور پسند کا یوزر نیم مشکل سے ملے گا.
:lol:

جفر:: آپ کو کسی کے ہتھے چڑھنے کا خوف نہیں ہے؟
:mrgreen:

پھپھے کٹنی said...

تحرير بحثيت مجموعی اچھی ہے مگر پنگے اچھے نہيں

محمدوقار اعظم said...

پھپھے کٹنی:: تعریف کا شکریہ. آپ کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کرونگا۔
;-)

سعد said...

عمدہ تحریر لکھی بھئی آپ نے.
آپ کونسے ویب ہوسٹ پر ہیں؟

محمدوقار اعظم said...

سعد:: بلاگ پر خوش آمدید اور تعریف کا شکریہ. میں ایک فری ویب ہوسٹ استعمال کررہا ہوں جس کا لنک نیچے موجود ہے.
http://byethost.com/index.php/free-hosting

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

دیکھ لو بھائی دریا میں رہنا ھے اور مگر مچھ سے بیر

محمدوقار اعظم said...

بس جی دریا کے بہائو کے مخالف سمت میں تیرنے کی عادت سی ہوگئی ہے. اور مگرمچھ سے بیر تو جی لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا. یہ الگ بات ہے کہ لہو بہہ بھی سکتا ہے۔
;-)

عثمان said...

اچھی تحریر ہے یار۔۔۔۔
تاہم ایک دو باتیں پوچھنی تھیں ازراہ معلومات۔
کچھ ٹیکنالوجی کے متعلق اور کچھ معاشرتی علوم کے متعلق

محمدوقار اعظم said...

خوش آمدید جناب.....
ٹیکنالوجی اور معاشرتی علوم کے متعلق سوالات کا جواب تو کوئی اہل علم ہی دے سکتا ہے جی میں تو بڑا کم علم سا بندا ہوں. ویسے پوچھنا کیا ہی جی آپ نے؟

عثمان said...

ویب سائٹ پر اپنی ڈومین لے رہا تھا. اس سلسلے میں کچھ تفصیلات اور کچھ راہنمائی چاہیے تھی. فی الحال تو بلال بھائی کو زحمت دے رہا ہوں. لیکن بار بار پوچھتا اچھا نہیں لگتا. میں نے سوچا اگر دوسرے احباب کو بھی اس باری میں کوئی معلومات ہیں تو شئیر ہو جائیں.

معاشرتی علوم کے باری میں کچھ خاص نہین. میں کراچی کبھی نہین گیا. اور ذیادہ عرصہ بیرون ملک ہی رہ رہا ہوں. کچھ کراچی کے متعلق ہی پوچھنا تھا. لیکن پھر سہی.
شکریہ.

محمدوقار اعظم said...

اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد کے لئے میں حاضر ہوں۔ چاہے وہ ڈومین کے بارے میں ہو یا کراچی کے بارے میں۔
;-)

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here