قصہ حوالات میں گذرے چند گھنٹوں کا - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Wednesday, May 26, 2010

قصہ حوالات میں گذرے چند گھنٹوں کا

منگل 18 مئی 2010 کی ایک سیاہ شام کا ذکر ہے۔ دفتر سے گھر آئے ہوئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ بجلی چلی گئی۔ ہم سمجھ گئے کہ 7 بج چکے ہیں۔ بس جی ابھی ہم منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہمارے دوست "نورالحسن" کی مس کال وقفے وقفے سے ہمارے موبائل پر موصول ہونے لگی۔ ہم سمجھ گئے کہ نورالحسن ہمیں شرف ملاقات بخشنا چاہتے ہیں لہذا ہم فورا باہر نکلے اور چھوٹے بھائی کی موٹر سائیکل قبضے میں کی اور کوئٹہ ہوٹل [یہ ہمارے ایک پختون بھائی کی ملکیت ہے جہاں خالص دودھ، چینی اور چائے کی پتی کا آمیزہ چائے کے نام سے نہایت ارزان نرخوں پر پیش کیا جاتاہے] کا قصد کیا۔ ہم تمام دوست جن میں کچھ رجعت پسند اور کچھ روشن خیال ہیں خان صاحب کی چائے نوش جاں کرتےہوئے وہیں محفل جماتے ہیں۔ ہم ابھی اپنے محلے سے باہر ہی نکل پائے تھے کہ نورالحسن ہمیں اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ ہم نے بائیک ان کے سامنے جاکر روکی، رسمی سلام دعا اور حال احوال کے بعد وہ اصل مقصد کی طرف آئے اور کہنے لگے کہ فالاں حلقے میں درس قرآن ہے اور میری بائیک خراب ہے لہذا ساتھ چلو اور ہمارے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئے۔ ابھی اس مشکل سے نکلنے کے لئے کوئی بہانا سوچ ہی رہے تھے کہ ہمیں اپنے اردگر کچھ ہنگامی حالات کا احساس ہوا۔ ایک پولیس وین نہایت سرعت کے ساتھ ہمارے قریب آکر رکی اور ہماری حفاظت کی ضامن پولیس فورس کے جوانوں نے ترنت ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا اور ہم ان کی تیز رفتاری اور مستعدی کی داد دئے بغیر نہ رہ سکے۔ اتنےمیں ایک حوالدار ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا



کیوں اوے، یہ ڈبل سواری کیوں کرتے ہو۔ اوئے تمھیں پتہ نہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی ہے



بس جی یہ سنتے ہی ہم دونوں کے ہوش اڑ گئے، ہم نے غضب ناک نظروں سے نورالحسن کی طرف دیکھا جو شاید مجھ سے زیادہ خوف زدہ تھا پھر میں نےتقریبا گھگیا تے ہوئے حوالدار کو انسپکڑ صاحب کہ کر مخاطب کیا کہ جناب میں تو ابھی اکیلے ہی یہاں پہنچا ہوں یہ تو یونہی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے تھے۔ حوالدار کو انسپکٹرصاحب کہنے کے باوجود حوالدار صاحب کے چہرے پہ ہمارے لئے رحم کی رمق نظر نہ آئی، کہنے لگے

اوئے یہ تو تھانے پہنچ کر پتا چلے گا کہ کیوں بیٹھے تھے۔



اس کے بعد انہوں نے اپنے جوانوں کوہمیں تھانے لے چلنے کا حکم دیا۔ نورالحسن کو پولیس وین میں پیٹھا دیا گیا اور ایک موٹا تازہ پولیس کانسٹیبل میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ گیا۔ بس جی موبائیل روانہ ہوئی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے دھرتی کے بوجھ کو اٹھاے چل پڑے۔۔ ہمارا قافلہ عیدگاہ گرائونڈ پہنچ کر رک گیا جہاں شام کے وقت توبڑی رونق رہتی ہے لیکن رات ہوتے ہی سناٹا چھاجاتا ہے۔ حوالدار صاحب دوبارہ تشریف لائے تاکہ خلوت میں کچھ ساز بار کرسکیں۔ موصوف کا مطالبہ 500 روپے سکہ رائج الوقت کا تھا۔ نورالحسن کے پاس 200 روپے تھے اور میرے پاس بھی تقریبا 250 روپے کی رقم موجود تھی۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ہم تھوڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں لہذا فورا کہا کہ ہم آپ کو 500 روپے کیوں دیں ہمارا جرم کیا ہے؟ حوالدار سمیت تمام جوانوں نے ہمیں افسوسناک نظروں سے دیکھا اور پھر ہمارا قافلہ پولیس اسٹیشن کی جانب رواں دواں ہوگیا۔ راستے میں ہمیں اپنی اس حولناک غلطی کا احساس ہوا اور میں سوچنے لگا کے کیا ہوتا اگر پیسے دے دیتے، حوالدا 450 میں بھی مان جاتا۔ لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ قصہ مختصر تھانے پہنچ کرہمیں حوالات میں بند کردیا گیا۔ ہم نے اندر پہنچ کر چاروں طرف ایک طائرانہ سی نگاہ دوڑائی، اچھا خاصہ بڑا کمرہ تھا بغیر کسی روشن دان کے اور آمدورفت کے لئے لوہے کی سلاخوں سے بنا دروازا جس سے گذر کر ہم ابھی اندر تشریف لائے تھے۔ دروازے سے باہر کے مناظر صاف نظرآتے تھے۔ اس کے بعد ہم نے اپنے حوالاتی دوستوں پر نظر ڈالی۔ اکثریت بلکہ ہمارے علاوہ تمام افراد پختون نظر آئے کیونکہ پولیس اسٹیشن پختون اکثریتی علاقے میں ہے لہذا پولیس والے زیادہ تردد نہیں کرتے بلکہ قرب و جوار سے پکڑ کرہی کام چلاتے میں۔  اسی اثنا میں حوالات کے باہر سے کسی نے ہمارا نام لیکر ہمیں پکارا۔ ہم نے دیکھا کہ افتخار صاحب ہمارا حال احوال معلوم کرنے تشریف لائے ہیں۔ افتخار میاں ہمارے ایک بہت ہی اچھے دوست کے بھائِ ہیں جن کا تعلق میرا بھائی موومنٹ سے ہے اور انہیں ہمارے دوست نے مک مکاکرنے کے لئے عید گاہ گرائونڈ بھیجا تھا کہ پولیس والے سازباز وہیں کرتے ہیں۔ لیکن وہ ہمیں وہاں نہ پاکر تھانے چلے آئے اور اب ہم پر برس رہے تھے کہ یقینا تم نے اکڑ دکھائی ہوگی۔ اب گزارو رات تھانے میں اور صبح عدالت سے جاکر ضمانت کروانا۔ اور رات میں اگر ڈرائنگ روم کی سیر کرآئے تو ساری اکڑ بھول جائو گے۔ اور پھر واپس چلے گئے تاکہ ہمارے گھروالوں اور معززین علاقہ کو ہماری صحیح لوکیشن سے آگاہ کرسکیں کیونکہ ہیڈ محرر نے انھیں ٹکا سا جواب دے دیا تھا کہ جائو کسی بڑے کو بھیجو۔۔۔۔

اب ہم نے نورالحسن کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ حوالات کے سنگی فرش پر دیوار سے سر ٹکائے بہت غمگین بیٹھا ہے۔ اسے چھوڑ کر ہم اپنے دوسرے حوالاتی ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور سب سے تعارف حاصل کرنے لگے۔ سب کی کہانی تقریبا ایک جیسی تھی۔ اکثریت ڈبل سواری کے جرم میں پکڑی گئی تھی اور کچھ چھوٹے موٹے جرائم میں۔ ان میں سے ایک کی کہانی بڑی دلچسپ تھی۔ موصوف کا نام حکیم اللہ تھا۔ ان کے ساتھ ہوا یہ کہ ان کے چھوٹے بھائی جس کا نام امین اللہ ہے نے علاقے کی ایک بہت معزز شخصیت جن کا نام چکوال خان [نام سے پہلے ایک لفظ کا اضافہ کردیں اور درمیان سے ایک لفظ ہٹا دیں تو اصلی نام بن جائے گا] کی دختر نیک اختر کو اپنی سچی محبت کا یقین دلانے کے لئے ایک خط لکھا تھا اور اس کے بعد چمپت ہوگئے۔ چکوال خان صاحب علاقے کی بہت معزز شخصیت ہیں، پانی کے ٹینکرز اورغیرقانونی ہائڈرنٹس ان کے تصرف میں ہیں۔ زمینوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں مطلب لینڈ مافیا وغیرہ۔ پولیس کو امین اللہ تو ہاتھ نہیں آیا لہذا وہ حکیم اللہ کو ساتھ لے آئے۔

حکیم اللہ کی کہانی سن کر مجھے ایک ایس۔ایم۔ایس یاد آگیا جوکچھ یوں تھا کہ

بتائوکسی سے اظہار محبت کرنے کا بہترین دن کون سا ہے۔ ہم نے سوچا تو چانس 50 ففٹی ہی نظر آیا، آر یا پار۔ آگے لکھاتھا، نہیں پتا؟ ہکم اپریل، اگر بات بن جائے تو کول ورنہ کہہ دو باجی اپریل فول۔



میں نے حکیم اللہ سے کہا کہ اگر کبھی کسی سے اظہارمحبت کرنا ہو تو یکم اپریل کو کرنا۔ حکیم اللہ نے مجھے حیرت سے دیکھا پھر میں نے اسے پورا طریقہ سنایا اور آکر نورالحسن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ نورالحسن نے میری طرف دیکھا  اور کہنے لگا، بیٹا تو کتنے مزے سے ادھر ادھر گھوم رہا ہے اگر چھترول ہوئی نا تو لگ پتا جائے گا۔ میں نے کہا، اب کیا ہوسکتا ہے؟ اگر ایف – ائی – آر درج نہیں ہوئی ہوگی تو 2000 روپے لگیں گے اور اگر درج ہوگئی ہوگی تو 5000 اور پھر اسکے بعد صبح عدالت بھی جاتا ہوگا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ رات یہیں گذار لیں۔ تو ٹینشن مت لے اور بول

آل از ویل، آل از ویل



یہ کہتے ہی ہم نے اپنے اور نورالحسن کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ پیدا کیا کیونکہ وہ بڑے غضبناک اندازمیں ہماری طرف بڑھ رہے تھے، ہم نے فورا کسی حقیقت پسند کی طرح اپنا اور نورالحسن کا موازنہ کیا اور فورا کہا کہ یار فکر نہ کر ابو اور معززین علاقہ ہماری رہائی کے لئے کوششیں کررہے ہونگے۔ ابھی ہم نورالحسن کو دلاسہ ہی دے رہے تھے کہ باہر کھڑے سنتری کی آواز سنائی دی، وہ حکیم اللہ کو بلارہا تھا۔ حکیم اللہ چلاگیا تو ہم نے سوچا کہ چلو غریب کو جرم بیگناہی سے تو نجات ملی۔ لیکن ٹھیک 15 منٹ کے بعد حکیم اللہ کی واپسی ہوئی۔ ایک سپاہی اسے سہارا دیتا ہوا اند چھوڑگیا۔ اس کی حالت دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ چھترول ہوئی ہے۔ اب ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا اور بے اختیار ہم اللہ سے دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ بس چھترول سے بچالے اور بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق ابھی ہم دعا سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہم نے ابو کو اپنے بہنوئی صاحب کے ساتھ آتے دیکھا۔ ابو نے ایک نگاہ غلط ہم پر ڈالی اور ہیڈ محرر کے دفتر میں گھس گئے۔ بعد کے حالات بہنوئی صاحب کی زبانی معلوم ہوئے کہ جب ان سے مدعا بیان کیا گیا تو ہیڈ محرر نے نخوت سے کہا کہ ایف-آئی-آر کٹ چکی ہے، انسپکٹر صاحب آجائیں تو بات ہوگی۔

تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ راجہ اقبال صاحب جو کہ ہمارے ایک جاننے والے ہیں [اور جو ایک شدت پسند تنظیم کے حلف یافتہ رکن ہیں اور ان کے حلف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافظ کرنا] اپنے ایک دوست کے ہمراہ تشریف لے آئے جو کہ کسی ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں۔ [بندہ ٹی وی چینل میں بھلے چپڑاسی ہی کیوں نہ ہو لیکن بھرم خوب پڑجاتا ہے]۔ قصہ مختصر تھوڑی دیر بعد انسپکٹر صاحب تشریف لے آئے اور راجا صاحب سے سلام دعا کے بعد انھوں نے احکامات صادر کئے کہ اگر ایف-آئی –آر نہیں کٹی ہے تو دونوں کو لے آئو۔ چونکہ ایف – آئی – آر نہیں کٹی تھی لہذا ہم دونوں کا لائن حاضر کیا گیا۔ ہمارا تمام سامان بشمول رقم اور موبائل کے ہمیں لوٹا دیاگیا۔ انسپکٹر صاحب نے بائیک کی چابی عنایت کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ اگر اگلی بار تشریف آوری ہوئی تو آسانی سے نہیں جائو گے۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں ان کی شان میں قصیدے پرھتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر کے قریب پہنچ کر دوست احباب نے جو شاندار استقبال کیا اور پھر گھر میں جو کچھ ہوا وہ ہم بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔

بہر حال ہم بہت خوش تھے کہ چلو سستے میں بلکہ مفتے میں چھوٹ گئےلیکن یہ خوشی زیادہ دنوں قائم نہ رہ سکی اور ہم نے برادر جعفر کے بلاگ پر ان کا مضموں "چھترول بھی نعمت ہوتی ہے" پڑھ لیا۔ بس جی اس کے بعد سے ہم پر شدید رنج و الم کی کیفیت طاری ہے اور غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہم اکثر یہی سوچنے لگتے ہیں کہ اگر اس دن تھوڑی سی چھترول ہوجاتی تو ہمارے حالات بھی آج کچھ اور ہوتے۔ اس دن نہ جانے ہمیں دعا کرنے کی جلدی تھی یا اللہ کو قبول کرنے کی۔

زندگی میں نجانے کتنی بار ہر حسینہ مہ جبیں کو دیکھ کر بڑے ہی جذب کے عالم میں ہم یہ دعا کرتے کہ اے اللہ اس حسینہ دلنواز کے دل میں ہماری محبت کی جوت جگا دے لیکن اللہ نے کبھی بھی ہماری اس درخوست نما دعا کو درخواعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن اس دن۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اس دن جھٹ سے قبول کرلیا۔ پھر یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ بیٹا اس دن حوالات میں کوئِ وکیل نہیں تھا۔

13 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

تو گويا آپ تجربہ کار اور جہاں ديدہ بن گئے ہيں اب آپ صدر نہيں تو وزير بن سکتے ہيں

شکاری said...

اچھا انداز تحریر ہے اور وقت بھی اچھا گزارا حوالات میں. . .

ڈفر - DuFFeR said...

بڑی مزیدار آپ بیتی ہے
اگر لگے ہاتھوں حکیم اللہ کی آپ بیتی کا بھی ذکر ہو جاتا تو۔۔۔
میرا مطلب ہے بے چارے سے تھوٹی ہمدردی ہی کر لیتے
امین اللہ سے یاد آیا ہماری کلاس میں پڑھتا تھا
اور حافظ تھا
خط لکھنے والی پراپرٹیز بھی پائی جاتی تھیں اس میں
ہو نہ ہو مجھے شک ہے یہ وہی ہے

محمدوقاراعظم said...

افتخار اجمل بھوپال: بلاگ پر خوش آمدید، دیکھئے کب قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے۔
:lol:

شکاری: تعریف کا شکریہ.

ڈفر: بس جی چھترول کے خوف سے ہم ایسے بھاگے کہ پلٹ کر خبر ہی نہ لی. اگر کبھی حکیم اللہ سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو امین اللہ کا تفصیلی تعارف آپ کے گوش گزار کردوں گا۔۔۔۔

صفدر علی صفدر said...

آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قانون اور کے لمبے ہاتھ صرف کمزوروں اور غریبوں کو پکڑنے کےلئے اور امیروں کبیروں اور وزراء کو سلیوٹ کرنے کےلئے ہوتے ہیں... تواب سے بائیک پر ڈبل سواری سے پہلے آس پاس دیکھ لینا کے قانون کے رکھوالوں کے ہاتھ آپ کی گردن پر تو نہیں ۔۔۔

جعفر said...

واہ جی واہ
زبردست ۔۔۔
چھترول کرواہی لیتے تو اچھا تھا
کیونکہ جدید ترین تحقیق کے مطابق
یہ بھی نعمت ہوتی ہے

محمدوقاراعظم said...

صفدر علی صفدر :: بس یارا اب تو خیال رکھنا ہی پڑے گا۔
:cry:

جعفر:: بلاگ پر خوش آمدید، بس جی موقع نکل گیا۔ آپ اگر کچھ پہلے یہ لکھ مارتے تو ہمارے بھی دن پھر جاتے۔
:sad:

ڈفر - DuFFeR said...

صرف دن نہ پھرتے ;)

پھپھے کٹنی said...

ميرا تو ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا ہے

محمدوقار اعظم said...

ہمارے دن پھرتےپھرتےرہ گئے اور آپ ہنس رہی ہیں۔
:cry:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

جب سب ھنس چکے ہم اب ہنس رھے ہیں۔شا ید آپ نے ہمیں کرانچی کے چڑیا گھر دیکھا ہو۔کیا آپ کو ہم یاد ہیں؟

محمدوقار اعظم said...

آپ اب بھی ہنس سکتے ہیں جی، کوئی مسئلہ نہیں آپ بے فکر رہیں ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کیونکہ اس کے لئے ہمیں جاپان جانا ہوگا۔
:mrgreen:

عمران اقبال said...

اب تو آپ کی لمبی لمبی مونجھیں آ گئی ہوں گی اور ناک کی سائیڈ پر ایک نیا تل بھی اگ آیا ہوگا... غور کیجیے گا کہ چلتے ہوئے بازو اور گردن اکڑی تو نہیں رہتی...

میں تو آپ کو مشوم سا بندہ سمجھ رہا تھا آج تک... آپ تو... آہو...

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here