پشاوری آئسکریم اور کراچی - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Monday, April 16, 2012

پشاوری آئسکریم اور کراچی

میں پشاور صرف ایک بار گیا ہوں لیکن پشاوری آئسکریم سے برسوں کا یارانہ۔ یہاں کراچی میں ہر دو گلیوں کے بعد نکڑ پر ایک پشاوی آئسکریم کی دوکان موجود ہے۔ بچپن میں ملنے والا جیب خرچ جب دو روپے کی رقم کو پہنچ جاتا تو ہم گھر کے قریب واقع خان صاحب کی دوکان پر پشاوری آئسکریم سے شغل کے لیے پہنچ جاتے اور خان صاحب ہمیں دیکھتے ہی ہمارے مطلب کی آئسکریم ہمیں پیش کردیتے۔ یہ سلسلہ آج بھی کسی طور جاری ہے۔ دوکان اب ایک درمیانے درجے کے آئسکریم پارلر میں تبدیل ہوچکی ہے ساتھ ہی فلیورز میں اضافے کے ساتھ ساتھ قیمت دو روپے سے بڑھ کر پچیس روپے ہوچکی ہے۔

کراچی کی تاریخ کا مطالع کریں تو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی جس میں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم کے وقت ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان چلی گئی لیکن آج بھی ہندو کمیونٹی کی ایک قابل ذکر تعداد کراچی میں موجود ہے۔ نئے آئے مہاجرین نے اپنے جذبے، محنت اور لگن کے ساتھ جلد ہی کراچی کو ایک معاشی حب میں تبدیل کردیا۔ پاکستان کے طول و عرض سے لوگ بہتر معاش کی جستجو میں کراچی آنے لگے اور کراچی نے انہیں کسی پر شفقت ماں کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔

جب ہم اسکول میں تھے تو وہاں ہر رنگ و نسل کے بچوں سے تعلق رہا لیکن ایک بات ہمیشہ کھٹکتی رہی کہ جب بھی کسی سے تعارف ہو تو وہ یہ ضرور پوچھتا کہ کہاں سے تعلق ہے؟ ہم جب اسے بتائیں کہ بھئی یہیں کراچی سے تعلق ہے تو اس کا ردعمل کچھ یوں ہوتا کہ "او نہیں بھئی آبائی تعلق کہاں سے ہے"۔ یہ سوالات یوں ہی چلتے رہے اور ہم اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی میں جا پہنچے جہاں داخلے کی شرائط میں ڈومیسائل اور پی آر سی کا حصول لازمی ہے۔ ان دونوں سرٹیفیکیٹس کے حصول کے لیے آپ کو ایسے ہی ایک سوال کا جواب لازمی دینا ہوتا ہے۔ آپ یا آپ کے والدین سن 47 میں پاکستان آئے یا سن 71 میں؟ اس سب کے باوجود اٹھارہ سو میل دور رہنے والے اسی غم میں گھلے جاتے ہیں کہ اہل کراچی 60 سال بعد بھی مہاجر کیوں ہیں۔

شام کو دفتر سے نکلتے ہوئے مہاجر کے معنوں پر غور کرتا اپنے اسٹاپ پر پہنچا اور اپنے روٹ کی بس کا انتظار کرنے لگا۔ حال ہی میں ایک ماہ کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اسٹاپ پر کھڑے افراد کیا مہاجر، کیا پٹھان، ٹرانسپورٹ مافیا پر گالیاں اور تبرا بھجیتے نظرآئے جن کے بقول پابندی دراصل ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے۔ بڑی مشکلوں سے بس میں جگہ ملی۔ کراچی کی بس ایک ایسی جگہ ہے جہاں حالات حاضرہ پر بے لاگ تجزیے و تبصرے مفت میں سُننے کو مل جاتے ہیں۔ کوئی پیٹرول کی قیمیت اور مہنگائی کو رو رہا ہے تو کوئی صدرمملکت کے دروہ اجمیر کی کہانی بیان کررہا ہے۔ اس سب میں اہم ترین موضوع کراچی کے حالات ہیں پھر واعظ و تبلیغ کا دور شروع ہوا۔ خطبہ حجۃ الوداع کے نکات سمجھائے جانے لگے کہ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ دل نے کہا "ارے یہ کیا، ادھر تو سب شیر و شکر بیٹھے ہیں، یہ اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے؟" اچانک کنڈکٹر کی کسی مسافر سے نوک جھوک کی آواز آنے لگی۔ "گاڑیاں سی این جی سے چلاتے ہو اور کرایہ پیٹرول کے لحاظ سے لیتے ہو"۔ کندکٹر اس کی بات سنی ان سنی کرتا میرے اسٹاپ کے آنے کی آواز لگانے لگا۔

بس سے اُتر کر گھر کی طرف جاتے ہوئے کوئٹہ ہوٹل کے ساتھ پشاوری آئسکریم کی دوکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے خان صاحب نے اشارے سے آئسکریم کھانے کی دعوت دی لیکن اچانک پیرودہائی موڑ پر ملنے والی کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم کی کڑواہٹ یاد آگئی۔ میں خان صاحب سے معذرت کرکے تیز تیز گھر کی طرف بڑھنے لگا۔

5 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

یہ پشاری آئسکریم تو گرم ہوتی جارہی ہے۔ :(
ویسے یہ پیرو دھائی والی آئسکریم کی کڑواہٹ کا کیا معاملہ ہے؟

محمد بلال خان said...

اب ہر کوئی آئس کریم پر لکھے گا ، دیگر موضوع ختم ہوگئے ہیں لگتا ہے :lol:

یاسرخوامخواہ جاپانی said...

شرم کرو اوئے
کیوں چھیڑ خانی کرتے ہو :lol:

ضیاء said...

اب میں لکھوں گا ملیر کی واڈکا اور مری کی جن پر :)

کاشف نصیر said...

یاسر بھائی : یہ چھیڑخانی جس متعصب لالے نے شروع کی تھی اسکی بھی تو کچھ خبر لیں۔

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here