ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Wednesday, September 1, 2010

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

امت مسلمہ پچھلے کئی سو سالوں سے زوال اور پستی کا شکار ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عالمی منظرنامے پر مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا اور مسلمان چینی ترکستان سے ہسپانیہ کے ساحلوں تک پھیلے ہوئے تھِے لیکن جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کے بعد اعلان بالفور کے ذریعے سرزمین فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی راہ ہموار کی گئی۔ مشرق وسطی کے مسلم علاقوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ انہیں آسانی سے کنٹرول کیا جاسکے۔ شام، لبنان اور عراق وغیرہ، یہ سب اسی دور کی یادگار ہیں۔

پچھلے دوسو سالوں کی تاریخ گواہ ہے کہ غیروں کی چیرہ دستیوں، اپنوں کی غداریوں اور مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کے سبب مسلم دنیا غلامی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہونا شروع ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے ممالک میں آزادی کی تحریکیں برپا کردیں۔ برصغیر میں اسکا ثمر پاکستان کی صورت میں ملا۔ ایک ایسا ملک جسے اسلامیان ہندوستان نے اس آس پر حاصل کیا کہ یہاں نظام اسلامی کیا نفاذ ہوگا لیکن پھر وہی سازشیں انہی پرانے سازشیوں سے شروع کردیں۔

جماعت اسلامی و دیگر برادر تنظیموں نے قرارداد مقاصد کی منظوری سے 73ء کے آئین تک اور بھٹو آمریت سے پرویزمشرف کی روشن خیالی تک کسیے ان سازشیوں کا راستہ روکا اور ان کی سازشوں کے آگے بند باندھا یہ ایک طویل بحث ہے۔ یہ آج میرا موضوع بھی نہیں ہے۔ فیس بک پر یونہی مٹر گشت کرتے ہوئے ایک محترم بلاگر کی تحریر نظر سے گذری جس کا عنوان تھا 'ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے – بالکل نہیں' جس میں انہوں نے جماعت اسلامی پر منافقت کا الزام لگاتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات گنوائے:
1-  کشمیر میں جہادی سرگرمیاں۔
2- فلسطین میں جہاد آزادی کی حمایت۔
3- افغانستان میں جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کو جہنم بنانے کا الزام۔
4- موصوف کی رگ حمیت توہین رسالت پر بھی پھڑکی ہے کہ اس کی وجہ سے یار لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چلانے والے اپنے لوگوں کا نقصان کرتے ہیں۔ اور اس نقصان کا بار بھی انہوں نے جماعت اسلامی پر ڈالا ہے۔
5- مسئلہ چیچنیا پر مریخ میں ہونے والی ہڑتال کا الزام بھی جماعت اسلامی کے سر ہے۔
6- اور سب سے آخر میں فرماتے ہیں کہ اگرہماری ہمدردیاں کشمیر و فلسطین، افغانستان و چیجنیا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہیں تو  سنکیانگ، چین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر جماعت خاموش کیوں ہے؟

ویسے تو جماعت کے ذمہ داران ان سوالوں کے بار بار تسلی بخش جواب دے چکے ہیں جو شاید محترم بلاگر کی نظروں سے نہ گزر سکے یا شاید موصوف جہاں جماعت کا نام آجائے وہاں سے دو میل دور چلے جاتے ہیں تاکہ کہ ان کے شر سے بچ سکیں۔ اس طرح کے الزامات ہمارے سکیولرسٹ اور نام نہاد روشن خیال تو لگاتے ہی ہیں لیکن خود کو اسلام پسند کہنے والوں کی طرف سے الزامات حیران کن نہیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جماعت اپنے قیام کے فوراْ بعد جدوجہد شروع کی تو اس کی راہ میں روڑے سب سے پہلے نام نہاد مذہبی لوگوں نے ہی اٹکائے جو اسلام کو محض ممبرومحراب کا اسیر بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔

موصوف مسئلہ فلسطین و کشمیر و افغانستان اور چیچنیا کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر اس کا موازنہ سنکیانگ سے کررہے ہیں جہاں کے حالات و واقعات بالکل مختلف ہیں۔  مسئلہ کشمیر و فلسطین ا ور افغانستان کے بارے میں تو سبھی جانتے ہونگے۔ جبکہ چیچنیا کبھی روس کا حصہ نہیں رہا۔ چیچنیا، داغستان اور ملحقہ ریاستوں کے مسلمانوں نے امام شامل بسائیف کی قیادت میں روسیوں کے خلاف ایک لازوال جنگ لڑی ہے۔ کمیونسٹ دور میں ان پر روا رکھے جانے والے مظالم کو جاننے کے لی خلیل احمد حامدی کی تصنیف "سرخ اندھیروں میں" کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ ان تمام علاقوں میں لاکھوں افراد کی شہادت، خواتین کی آبروریزی اور لاکھوں مردوخواتین کی اسیری کا موازنہ سنکیانگ سے؟ اب تک بی بی سی نے کتنی شہادتوں اور اسیران کی اسیری کو رپورٹ کیا ہے؟ وہ کیا اعداد و شمار ہیں جنہوں نے آپ کو اس موازنے پر مجبور کیا؟

چین کا اسلام سے تعلق چودہ سو سال پرانا ہے۔ بہقی کی ایک حدیث میں بھی چین کا ذکر ہے جس کے مطابق "رسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔ اسلام سب سے پہلے معروف صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کے ذریعے چین پہنچا۔ اس کے بعد مسلمان تاجروں کا چین سے تعلق مشہور زمانہ سلک روٹ (شاہراہ ریشم) کے ذریعے مضبوط ہوتا گیا۔ آج بھی مسلمان چین کے ہر علاقے میں موجود ہیں اور آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے عہد میں 1948ء کے بعد دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام پر بھی کڑا وقت آیا اور اسے مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب حالات بہت مختلف ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ چین کے دو صوبے سنکیانگ اور گانسو میں مسلمان اکثریت می ہیں۔

ہمارے محترم بلاگر کا شکوہ سارے چین کو چھوڑ کر صرف سنکیانگ کے بارے میں ہے۔ سنکیانگ چین کے شمال مغرب میں چینی ریاست کے زیراثرخودمختار حیثیت کا حامل ایک بہت وسیع علاقہ ہے جس کا رقبہ تقریباً سولہ لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی انتہائی کم یعنی تقریباً دوکروڑ اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے۔  رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان سے تقریباً دوگنا ہے۔  آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 45 فیصد ہے۔  سنکیانگ اوغر نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کا گھر بھی ہے۔ تقریباً 80 فیصد اوغر جو کہ اصل میں ترکی انسل ہیں سنکیانگ کے جنوب مغربی حصے میں بستے ہیں۔ ان اوغر مسلمانوں میں سے کچھ اوغروں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ برسرپیکار تنظیموں میں ایسٹ ترکستان لبریشن آرگنائزیشن اور ایسٹ ترکستان انڈیپینڈنٹ موومنٹ "اوغرستان" کے لیے جدوجہد کررہی ہیں جبکہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ایک اسلامی وطن کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ یہ تنظیمیں ہان چینی اور دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں ملوث رہی ہیں۔

موصوف کا شکوہ ہے کہ جماعت اسلامی ان کی جدوجہد کی مدد و حمایت کیوں نہیں کرتی جبکہ باقی جگہوں پر بڑی شدومد کے ساتھ مصروف عمل ہے؟ پتہ نہیں انہوں نے یہ الزام لگانے سے پہلے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر سوچ بچار کیا ہے یا نہیں۔ اگر اوغروں کے مطالبے کو جائز تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو کل کو کوئی بھی اٹھ کر کہے گا کہ ہمیں الگ وطن چاہیے۔ سرائیکی کہیں کہ صوبہ نہیں الگ وطن سرائیکستان بنائیں گے۔ اسی طرح دیگر قومیتیں۔ بلوچ تو ویسے ہی کہہ رہے ہیں کہ آزاد بلوچستان۔ تو کیا جماعت اسلامی کو آزاد بلوچستان کے مطالبے کو تسلیم کرکے بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی مدد و حمایت کرنی چاہیے؟ بلوچستان میں غیر بلوچ آبادکاروں پر ہونے والے حملوں کو جائز قرار دینا چاہیے؟ اور کیا اس بودی دلیل کے ساتھ جماعت پر منافقت کا الزام لگانا منافقت نہیں ہے؟ کیا واقعی کشمیر و فلسطین، افغانستان اور چیچنیا کے حالات کا سنکیانگ سے موازنہ کسی دائمی بغض و عناد کی نشاندہی تو نہیں کرتا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے محترم بلاگر پر قرض ہیں۔

آپ اپنی تحریر کے حق میں استعماری قوتوں کے آلہ کار بی بی سی کا لنک پیش کیا جسے کشمیر و فلسطین، افغانستان، چیچنیا اور عراق میں کچھ نظر نہیں آتا لیکن تہران میں چند سو کے مجمع کی رپورٹنگ اس انداز سے کرتے ہیں کہ جیسے سارا تہران ملائوں کے خلاف باہر نکل آیا ہے۔ سنکیانگ میں چند مساجد کو سیل کرنے پر ایسا واویلا کررہے تھے کہ جیسے یہ سب کچھ دنیا کے دوسرے علاقوں میں ہوتا ہی نہیں۔ میں نے خود اپنے شہر کراچی میں مساجد کو سیل ہوتے دیکھا ہے تو کیا خیال ہے یہاں بھی علم جہاد بلند کیا جائے؟

ہم یقیناً دنیا بھر کے مظلومین کی مدد و حمایت کرتے رہیں گے لیکن خواہ مخواہ کی مصیبتوں کو دعوت دینا اور نازک ترین حالات میں اپنے دشمنوں میں اضافہ کرنا یقیناً ایک مومن کے شایان شان نہیں ہے کیونکہ مومن بصیرت سے عاری نہیں ہوتا، حکمت اس کو پونجی ہوتی ہے، جذباتیت نہیں جذبے سے اس کا دل معمور ہوتا ہے، وہ جذبہ جو وقتی ابال پر مبنی نہ ہو۔ جو سازش کے مقابلے میں حکمت، عیاری کے مقابلے میں ذہانت اور شاطرانہ چال کے مقابلے میں مومنانہ فراست والی منصوبہ بندی کرسکتا ہو۔ اس کے سامنے واضح اہداف ہوں اور وہ ان اہداف کے حصول کے لیے موثر، ہمہ پہلو اور  برف کے دماغ سے سوچی ہوئی منصوبہ بندی کرے۔

اے کاش آپ نے اقبال کے اس نظم کو جس کے ایک شعر کو آپ نے اپنی پوسٹ کا عنوان بنایا ہے پورا پڑھا ہوتا، اس کے معنی و مفہوم پر کچھ غور کیا ہوتا خاص کر اسکا آخری شعر تو شاید اسکول میں پڑھے ہوئے سبق پر ہنسی اور مخول نہیں سوجھتا۔ یقینا ہمارا مطمع نظر "ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے" ہی ہے۔ غور سے دیکھیں اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مصر اور ترکی میں ایک نئی قوم انگڑائی لے رہی ہے۔ امت مسلمہ دریائے نیل س کاشغر تک خواب سے بیدار ہوا چاہتی ہے پھر پان اسلامک ازم ایک خواب نہیں رہے گا۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کریگا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائیگا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

No comments:

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here