سوات: مہاجرین کا المیہ - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Wednesday, May 13, 2009

سوات: مہاجرین کا المیہ

آج کل صوبہ سرحد کے ضلع سوات اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن موضوع بحث بنا ہوا ہےجس کے نتیجے میں پچھلے دس پندرہ سالوں میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی ہے اور تیرہ لاکھ سے زائد افراد بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گھروں سے نکل پڑے ہیں۔ سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمدی اور حکومت کے درمیان امن معاہدے کے بعد امید کی جارہی تھی کے وہا ں امن قائم ہو جائے گا لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار شروع ہی سے اس معاہدے کے خلاف تھے۔ معاہدے کے بعد کی صورت حال کا موازنہ اگر اس سے پہلے کے حالات سے کیا جائے تویہ یقینا پچھلے ڈیڑھ سالوں سے بہتر تھے اور اس معاہدے کو مزید وقت دیاجانا چاہئے تھا۔ اس تمام عرصے میں عوامی نیسنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کا کردار نہایت گھنائونا رہا۔ یہ سکیولرازم کی علمبردار انتہا پسند کبھی یہ چاہ ہی نہیں سکتے کے ملک کے کسی گو شے میں شریعت کا نفاذ ہو اور اس کے نتیجے میں امن و انصاف کا بول بالا ہوجائے اور یہ پورے ملک کے لئے امید کی کرن بن جائے، اور یوں لگتا تھا کے صوفی محمد بھی کچھ جلدی میں ہیں۔ دونوں اطراف سے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جاتے رہے اور بلاخر امریکی دبائو پر سوات میں آپریشن کا دوبارہ آغاز کردیا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کے اس کے نتیجے میں مہاجرین کا سیلاب امڈ آئیگا ان کی کفا لت کا پیشگی کو ئی انتظام نہیں کیا گیا۔ تادم تحریر آگ و خون کا یہ کھیل سوات میں جاری ہے۔ کرفیو میں نرمی کے وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محفوظ مقاما ت کی طرف جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور سوات کے گلی کوچوں میں عام شہریوں اور عسکریت پسندوں کے بےگوروکفن لاشے پڑے ہوئے ہیں۔ مہاجرین کی بحالی اور کفالت کے لئے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور الخدمت فاءونڈیشن کےسوا کوئی دوسری قابل ذکر این جی اوز موجود نہیں ہے اور حکومت کی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم ایثار و اخلاص کے ساتھ ان مہاجرین کی امداد کرے جو اپنے ہی وطن میں ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

No comments:

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here