میں ووٹ نہیں دونگا۔۔۔ - اعظم بلاگ

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Friday, May 10, 2013

میں ووٹ نہیں دونگا۔۔۔

میں ایک عام پاکستانی ہوں اور میں اس نظام جمہوریت کو اللہ سے بغاوت اور کفریہ نظام سمجھتا ہوں اس لیے میں ووٹ نہیں دوں گا تاکہ قوم کے ذلیل ترین افراد ایک مرتبہ پھر حکمران بن کر مجھ پر مسلط ہو جائیں، اور میں گزشتہ پانچ سال جس صورتحال سے گزرا، آئندہ پانچ سالوں میں اس سے زیادہ بھگتوں۔ اس کے برعکس میں خلافت کا قائل ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ خلافت اور جمہوریت دو متضاد چیزیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت بنی امیہ اور بنی عباس میں ظالم و جابر ہی امت مسلمہ پر مسلط رہے لیکن مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمارے علماء نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ جمہوریت کا خلافت یا اسلام سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں لہٰذا مجھے ظالم و جابر خلیفہ قبول ہے لیکن میں نظام جمہوریت میں اپنا حکمران چننے کے لیے ووٹ کا حق استعمال کرنے نہیں جاؤنگا کیوں کہ میرے مطابق تو حکمران کے انتخاب کا اختیار صرف صائب الرائے افراد کو ہی حاصل ہونا چاہیے۔ باوجود اس کے کہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

میرے ووٹ نہ دینے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ مجھے کوئی موزوں امیدوار نظر نہیں آتا۔ میں جب بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے چور، لٹیرے، بدمعاش اور دہشت گرد ہی نظر آتے ہیں اور ان سے بچنے کا میرے پاس ایک ہی فارمولا ہے کہ ووٹ دینے سے اجتناب کروں۔ باوجود اس کے کہ میرے اس فعل سے ایک بار پھر یہی چور لٹیرے اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔ حالانکہ کسی نیک اور صالح فرد کو ان چوروں اور لٹیروں کے بالمقابل سامنے لایا جاسکتا ہے لیکن میں اس کے بجائے اس نظام سے بغاوت اور خلافت کے قیام کا منتظر رہنا بہتر سمجھتا ہوں۔

میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے اسی ملک میں رہنا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انہی قوانین کی پابندی کرنی ہے جو حکومت بنائے گی۔ آٹا اسی نرخ پر خریدنا ہے، گیس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی اسی نرخ پر کرنی ہیں جو حکومت مقرر کرے گی غرضیکہ ہر شے پر میں ان حاکموں کا محتاج ہوں۔ لیکن جب ان کو منتخب کرنے کی باری آتی ہے تو میں انکار کردیتا ہوں اور اپنے لیے مزید عذاب اکٹھے کرتا ہوں۔

میں پچھلے پانچ سال سی این جی کی لائن میں دھکے کھا کر ذلیل و خوار ہوتا رہا اور دامن پھیلا کر حکمرانوں کو گالیاں دیتا رہا لیکن جب حکمران کے انتخاب کا وقت آیا تو نظام کی بحث چھیڑ کر جنگلوں، بیابانوں میں نکل پڑا کہ میں ووٹ نہیں دوں گا بھلے میرے ووٹ نہ دینے نے اس بار بھی وہی چور لُٹیرے دوبارہ آسانی کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوجائیں اور میں اگلے پانچ سال مزید سی این جی کی لائنوں میں دھکے کھاتے اور حکمرانوں کو گالیاں دیتے گزاروں اور اس کے بعد بھی نہ جانے اور ایسے کتنے پانچ سال گزارنے پڑیں یہاں تک کہ میرا خدا مجھ پر ترس کھا کر آسمان سے کوئی خلیفہ اتار دے جس کی طرز حکمرانی سے خلافت راشدہ کی یاد تازہ ہوجائے۔

سی این جی کی لائنوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے مجھے اپنی آمد و رفت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرناپڑا۔ میں منی بسوں اور ویگنوں میں خوار ہوا بلکہ اکثر تو دروازے پر لٹک کر یا چھت پر بیٹھ کر سفر کیا اور یہ سفر اکثر حکمرانوں کو کوستے یا کنڈکٹر سے کرائے میں اضافے پر جھگڑتے ہی کٹتا لیکن اب جبکہ حکمرانوں کے انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا ہے جو میری ان مصیبتوں کو دور کرسکیں تو میں کسی بہتر امیدوار کو ووٹ دینے کے بجائے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اُنہی چوروں اور لُٹیروں کو مزید پانچ اپنے سروں پر مسلط ہونے کا موقع دینا چاہتا ہوں۔

مجھے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مہنگے پرائیوٹ اسکولوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری پیلے اسکولوں کے معیار تعلیم سے تو سب واقف ہیں لیکن جب اُن حکمرانوں کے انتخاب کا وقت آتا ہے جو تعلیم کا بجٹ طے کرتے ہیں اور تعلیمی پالیسیاں بناتے ہیں تو میں ان حکمرانوں کے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے اپنی رائے نہیں دیتا نتیجتاً مجھے اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پرائیوٹ اسکولوں کی نذر کرنا ہی پڑتا ہے۔ میں اگلے پانچ سال مزید ان پرائیوٹ اسکولوں کے ذریعے لُٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں بہتر تعلیمی نظام کے لیے کسی اہل فرد کو ووٹ دینے پر تیار نہیں ہوں۔

شہر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں؟ لہذا مجھے علاج معالجے کے لیے نجی اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹر کی کرسی پر بیٹھے مسیحا کے روپ میں ڈاکوؤں کو اکثر خراج دینا پڑتا ہے لیکن میں صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے اہل اور دیانت دار افراد کو اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کرنے سے انکار کرتا ہوں تاکہ مزید پانچ سال نجی اسپتالوں کے کرتا دھرتاؤں کی تجوریوں کو بھرتا رہوں۔

میرا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے۔ فسادات، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ سے اس ملک کے کسی شہری کو مفر نہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ اقتدار پر مسلط حکمراں ٹولے کے مفادات کے مرہون منت ہے لیکن جب ان حکمرانوں کے انتخاب کا وقت ہے تو میں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے تاکہ یہی لوگ پھر سے ہمارے سروں پر مسلط ہوجائیں اور میں مزید پانچ سال دہشت گردی اور خوف و ہراس کا مزہ چکھوں۔

میں الحمداللہ مسلمان ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے وطن کو عالمی برادری میں ایک اہم مقام حاصل ہو۔ میں اسے صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانا چاہتا ہوں۔ امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتا ہوں لیکن اقتدار پر مسلط ٹولے نے اسے عالمی برادری اور خود امت مسلمہ میں ایک تماشہ بناچھوڑا ہے۔ اب جبکہ حکمرانوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا ہے تو میں ووٹ ڈالنے سے انکار کرکے دین بیزار اور نام نہاد سکیولر و لبرلز لٹیروں کو اگلے پانچ سال مزید موقع دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس ملک کی اقوام عالم میں رسوائی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

اب تک تو آپ جان گئے ہونگے کہ میں نظام جمہوریت سے بغاوت اور ووٹ سے انکار کی وجہ سے کتنی بڑی قربانیاں دیتا آرہا ہوں۔ لیکن پھر بھی میں ووٹ کے ذریعے اپنی قسمت بدلنے کوشش نہیں کروں گا باوجود اس کے کہ میں جانتا ہوں کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی --- نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔

5 comments:

محمد ریاض شاہد said...

اور اس دن میں سارا دن سوتے میں یہ خواب دیکھوں گا کہ خلافت آ گئی ہے

کاشف نصیر said...

میں بھی خلافت کا حامی لیکن اسکے باوجود میں نے پچھلی بار بھی ووٹ ڈالا تھا اور اس بار بھی اپنا حق رائے استعمال کروں گا۔

منیر عباسی said...

میرا نہیں خیال کہ یہ مسئلہ اتنا سادہ ہے۔ اسلام، بحیثیت مذہب کسی خاص قسم کے نظام حکومت کو فوقیت نہیں دیتا۔ نہ ہی قرآن میں اور نہ حدیث میں یہ بات کہیں کہی گئی ہے۔ یہاں تک تو میرا علم ہے۔

اگر ایسی بات کہیں ہے، تو پہلے مجھے بتا دیں کہ میں اپنی تصحیح کر لوں۔

تو آپ اس صورت حال میں کسی ایک یا دو نظام حکومت کے موافق اور مخالف دلائل دے کر اپنے وقت کا ضیاع نہیں کر سکتے۔ کیوں نہ کوئی درمیانہ رستہ نکالا جائے جہاں جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو خود بخود اکثریت حاصل ہو جائے اور باقی سب کو اپنی جگہ پانے کے لئے جد و جہد کرنی پڑے وقار؟؟

جواد احمد خان said...

لگتا ہے کہ آنجناب کو خاصی خفگی ہے خلافتیوں پر.... :-) :-)

منیر عباسی said...

لو جی ہو گئی خواہش پوری اپ کی ووٹ نہ ڈالنے کی.

آپ کی اخلاقیات ایک طرف رہ گئیں اور ووٹ ڈلوانے والوں نے ووٹ ڈلوا دئے. لے آؤ اسلامی انقلاب پاکستان میں جماعت والو.

ہونا پڑا نہ دستبردار اپنے پرانے گڑھ میں؟؟

ہو چوپو!!!ر

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here